سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(443) خلع کی عدت

  • 20091
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 680

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے اپنی بیٹی کا خلع بذریعہ عدالت لیا، جبکہ عدالت کے کہنے پر اس کے خاوند نے عدالت میں طلاق نامہ بھی جمع کرا دیا، اب بیٹی کو کون سی عدت گزارنا ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خلع، عورت کے مطالبہ پر ہوتا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں۔

 بیوی خاوند گھر میں اس امر پر اتفاق کر لیں کہ بیوی اپنے خاوند کو طے شدہ حق مہر واپس کر دے اور خاوند اس معاملے کے مطابق اسے طلاق دے دے۔

 اگر خاوند اسے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو عورت کو بذریعہ عدالت خلع لینے کا حق ہے اس کی پھر دو صورتیں ہیں پہلی صورت یہ ہے کہ عدالت، خاوندکو طلاق دینے کا نوٹس جاری کرے گی۔ اگر وہ طلاق دے دے تو اس بنیاد پر عدالت تنسیخ کی ڈگری جاری کرنے کی مجاز ہو گی، دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت کے کہنے پر خاوند طلاق نہیں دیتا، بار بار یاد دہانی کے باوجود اس پر کان نہیں دھرتا تو ایسے حالات میں عدالت کو اختیار ہے کہ وہ تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کر دے، عدالت کے فیصلے کے بعد عورت صرف ایک حیض آنے کے بعد آگے نکاح کرنے کی مجاز ہے۔ صورت مسؤلہ میں لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کی طرف سے عدالت کی طرف رجوع کیا تاکہ خلع کا فیصلہ لیا جائے، عدالت کے کہنے پر خاوند نے عدالت میں طلاق نامہ جمع کرا دیا۔ چونکہ یہ طلاق، خلع کی بنیاد پر دی گئی ہے اس لیے اس کی عدت ایک حیض ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے۔ [1]

 حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ [2]

 اس بنا پر صورت مسؤلہ میں عورت کو صرف ایک حیض عدت گزارنا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  ابوداود، الطلاق: ۲۲۲۹۔

[2] ابوداود، الطلاق: ۲۲۳۰۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:374

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ