السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت نکاح کے بعد اپنے خاوند کے پاس صرف دو ماہ رہی، اس دوران خاوند اس کے قریب تک نہیں گیا،پھر اس نے طلاق دے دی، مطلقہ بیوی نے ایک ہفتہ بعد عقد ثانی کر لیا، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ جس عالم دین نے نکاح پڑھایا اس نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، قرآن و حدیث کے مطابق اس کی وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے ہاں عام طور پر یہ رواج ہے کہ نکاح کے ساتھ ہی رخصتی ہو جاتی ہے اور اسے شادی کہتے ہیں، تاہم یہ بھی ہوتا ہے کہ پہلے نکاح کر دیا جاتا ہے مثلاً بچپن میں نکاح کر دیا اور رخصتی یا شادی کچھ مدت کے بعد یا زوجین کے جوان ہونے کے بعد ہوتی ہے ، عرب میں یہ عام رواج تھا کہ نکاح پہلے ہو جاتا تھا اور رخصتی بعد میں ہوتی تھی، رخصتی سے قبل طلاق کی صورت میں عورت پر کوئی عدت وغیرہ کی پابندی نہیں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم چھونے سے پیشتر طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جس کے پورا ہونے کا تم ان سے مطالبہ کرو۔‘‘[1]
صحبت سے پہلے طلاق دینے میں چونکہ حمل وغیرہ کا احتمال نہیں ہوتا لہٰذا غیر مدخولہ عورت پر کوئی عدت نہیں اگر وہ چاہے تو طلاق کے فوراً بعد نکاح کر سکتی ہے۔ صورت مسؤلہ کچھ اس طرح ہے کہ رخصتی عمل میں آچکی ہے اور بیوی اپنے خاوند کے پاس دو ماہ رہی ہے اگرچہ اس دوران خاوند اس کے قریب نہیں گیا اور اس نے طلاق دے دی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت میں خلوت صحیحہ کو صحبت کے مترادف قرار دیا جائے اور بیوی کو عقد ثانی کے لیے عدت کے ایام پورے کرنا ہوں گے یا خلوتِ صحیحہ کو صحبت کے مترادف نہیں خیال کیا جائے گا اور وہ رخصتی عمل میں آنے کے باوجود اس پر عدت وغیرہ گزارنے کی پابند نہیں ہو گی۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایسی عورت کو عدت گزارنا ہو گی اور اسے مدخولہ کا حکم دیا جائے گا، اگرچہ اس دوران شوہر نے اس سے مباشرت نہ کی ہو، کیونکہ فقہاء نے برسبیل احتیاط یہ حکم لگایا ہے کہ اگر خلوتِ صحیحہ عمل میں آجائے جس میں مباشرت ممکن ہو اور وہاں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو اس کے بعد طلاق دینے کی صورت میں عدت لازم آئے گی اور سقوط عدت صرف اس حالت میں ہو گا جبکہ خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق دی گئی ہو، چنانچہ علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اگر عقد صحیح کے بعد خلوت عمل میں آجائے تو مہر پورا دینا ہو گا اور عورت پر عدت گزارنا بھی ضروری ہے اگرچہ اس سے مباشرت نہ کی ہو۔ خلفاء راشدین، حضرت زید اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے ایسا ہی مروی ہے نیز علی بن حسین، عروہ، عطاء، زہری، اوزاعی، امام اسحاق اور اہل رائے کا بھی یہی موقف ہے۔ [2]
حضرت زرارہ بن اوفی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ خلفاء راشدین کا یہ فیصلہ ہے کہ نکاح کے بعد جب میاں بیوی اکٹھے ہو جائیں، پردے لٹکا کر دروازے بند کر دئیے جائیں تو اس سے مہر واجب ہو جاتا ہے اور عورت پر عدت گزارنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔[3]
حضرت عمر، حضرت علی، حضرت سعید بن مسیب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی یہی ثابت ہے کہ عورت پر عدت گزارنا ضروری ہے اور اسے حق مہر بھی پوا پورا ملے گا۔ [4]
عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ایسی حالت میں عورت کو مدخولہ ہی قرار دیا جائے کیونکہ مدخولہ قرار دینے میں میاں بیوی دونوں کا مفاد وابستہ ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ خلاف واقعہ بیان بازی کریں، ایسا کرنے سے شوہر کو نصف مہر سے اور بیوی کو عدت گزارنے سے چھوٹ مل سکتی ہے، اس بنا پر احتیاط اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ خلوت صحیحہ کے بعد اسے مدخولہ ہی قرار دیا جائے اور اس پر عدت گزارنے کی پابندی عائد کی جائے۔ صورت مسؤلہ میں طلاق کے ایک ہفتے بعد عقد ثانی درست نہیں بلکہ فوراً تفریق کرنے کے بعد تجدید نکاح کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۳۳/الاحزاب:۴۹۔
[2] مغنی، ص: ۵۹،ج۱۰۔
[3] مصنف ابن ابی شیبہ،ص: ۲۳۵،ج۴۔
[4] بیہقی،ص: ۲۵۵،۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب