سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(441) بذریعہ عدالت خلع لینے کے بعد دوبارہ نکاح کرنا

  • 20089
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 766

سوال

(441) بذریعہ عدالت خلع لینے کے بعد دوبارہ نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہندہ کی شادی زید سے ہوئی، دو سال بعد ان میں اختلاف پیدا ہو گئے اور ہندہ نے زید سے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا اور اپنی مرضی سے بذریعہ عدالت خلع لے لیا، اب ہندہ دوبارہ زید کے ہاں آباد ہونا چاہتی ہے کیا کتاب و سنت کی رو سے ایسا ممکن ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عائلی زندگی میں شرعی طور پر طلاق دینا خاوند کا حق ہے لیکن اگر میاں بیوی کے تعلقات اس حد تک کشیدہ ہو جائیں کہ باہمی اتفاق کی کوئی صورت نہ رہے اور شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو ایسے حالات میں اسلام نے عورت کو حق دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کو کچھ دے دلا کر اس سے خلاصی حاصل کرے، اسے شریعت میں خلع کہتے ہیں، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ میاں بیوی کی ازدواجی زندگی میں حدود اللہ کے پامال ہونے کا اندیشہ ہو، اس وضاحت کے بعد دین اسلام میں میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر دو صورتیں ایسی ہیں کہ وہ عام حالات میں اکٹھے نہیں ہو سکتے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

٭ جب خاوند اپنی زندگی میں وقفے وقفے کے بعد تین طلاقیں دے ڈالے تو ہمیشہ کے لیے مطلقہ عورت اپنے سابقہ خاوند کے لیے حرام ہو جاتی ہے البتہ تحلیل شرعی کے بعد اکٹھا ہونے کی گنجائش ہے واضح رہے کہ تحلیل شرعی مروجہ حلالہ نہیں کیونکہ ایسا کرنا حرام اور باعث لعنت ہے۔

٭ لعان کے بعد جو جدائی عمل میں آتی ہے وہ آیندہ زندگی میں باہمی نکاح کرنے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے، کسی بھی صورت میں ان کا آپس میںنکاح نہیں ہو سکتا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ کوئی ایسی صورت نہیں کہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر دوبارہ میاں بیوی کا نکاح نہ ہو سکتا ہو۔ صورت مسؤلہ میں یہاں بیوی کی علیحدگی بذریعہ خلع عمل میں آئی ہے لہٰذا اگر عورت اپنے مؤقف سے دستبردار ہو کر دوبارہ اپنے سابقہ خاوند کے ہاں آباد ہونے کی خواہش مند ہے تو شرعی نکاح کرنے کے بعد ازدواجی زندگی گزارنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے البتہ نکاح جدید میں ان تمام شرائط کو ملحوظ رکھنا ہو گا جو نکاح کے لیے ضروری ہے۔ (واللہ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:372

محدث فتویٰ

تبصرے