السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ملکی رواج کے مطابق شادی کے موقع پر گھریلو سامان عورت کے ورثا تیار کر کے خاوند کے گھر روانہ کرتے ہیں، اگر نہ دیا جائے تو بیوی سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ حق مہر کی رقم سے اسے تیار کرائے یا اپنے سر پرستوں پر زور ڈالے کہ وہ اسے تیار کر کے فراہم کریں، کیا عورت پر یا اس کے سر پرست پر واجب ہے کہ وہ گھریلو سامان تیار کر کے خاوند کو دے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعی طور پر گھر کا سامان شوہر پر واجب ہے، یعنی شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کرے اور اس گھر میں ہر قسم کی ضرورت کا سامان مثلاً برتن، بستر اور فرنیچر وغیرہ فراہم کرے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ١ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا١ ﴾[1]
’’کشادگی والے کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے، اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے حسب توفیق خرچ کرے اور اللہ تعالیٰ کسی شخص کواس کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
رہائش کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ﴾[2]
’’جہاں تم خود رہتے ہو وہاں اپنی بیوی کو بھی رہائش دو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم پر معروف طریقہ سے ان عورتوں کو کھلانا پلانا، اور انہیں لباس مہیا کرنا لازم ہے۔‘‘ [3]
پیش کردہ قرآنی آیات اور حدیث کا تقاضا ہے کہ گھر اور اس کی جملہ ضروریات فراہم کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے، بیوی یا اس کے سر پرست کے لیے گھر کی تیاری یا گھریلو سامان خریدنا واجب نہیں ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی کہ لڑکی کے والدین گھر کا ساز و سامان خرید کر خاوند کے حوالے کریں، اس سلسلہ میں کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ لڑکی کو یا اس کے والدین کو اس کام کے لیے مجبور کرے یا شادی کے بعد لڑکی پر سامان کی فراہمی کے لیے کوئی دباؤ ڈالے، ہاں اگر کوئی اس دباؤ سے آزاد ہو کر گھر کا سامان بنا کر دیتا ہے تو یہ اس کی طرف سے صدقہ ہو گا، اگر نیت خالص ہے تو اس صدقہ پر ثواب کی امید بھی کی جا سکتی ہے، نیز واضح رہے کہ حق مہر خاص بیوی کا حق ہے، وہ جہاں چاہے اور جیسے چاہے اسے خرچ کرنے کی مجاز ہے، اسے معاف کر دینے یا گھریلو سامان خریدنے کے لیے مجبور کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اگر اس کی رضا مندی سے استعمال کر لیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا﴾[4]
’’اگر وہ اپنی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو تم اسے مزے سے کھا پی سکتے ہو۔‘‘
بہرحال ہمارے ہاں لڑکی کی طرف سے گھریلو سامان فراہم کرنے کی رسمِ جہیز اصلاح طلب ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۶۵/الطلاق: ۷۔
[2] ۶۵/الطلاق:۶۔
[3] صحیح مسلم، الحج: ۱۲۱۸۔
[4] ۴/النساء:۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب