سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(429) مسئلہ رضاعت

  • 20078
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 747

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری آج سے پانچ سال قبل شادی اپنی خالہ زاد سے ہوئی تھی اور اب ہمارے دو بچے بھی ہیں۔ مجھے والدہ نے کئی مرتبہ بتایا کہ تیری نانی نے کئی مرتبہ تجھے دودھ پلایا تھا، اب میں پریشان ہوں کہ اگر رضاعت ثابت ہو جائے تو تعلقات کیسے ختم کیے جائیں اور بچوں کا کیا بنے گا؟ کتاب و سنت کی روشنی میں میری اس الجھن کو دور فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ میں خونی تعلق کی بنا پر جو رشتے حرام ہیں دودھ پینے سے بھی وہ حرام ہو جاتے ہیں۔ خونی رشتہ کی وجہ سے حرام ہونے والوں میں بھانجی بھی شامل ہے، نانی کا دودھ پینے سے خالہ زاد بہن، رضاعی بھانجی بن جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’دودھ پینے سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت یعنی خون سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ [1]

 صورتِ مسؤلہ میں اگر سائل نے واقعی اپنی نانی کا دودھ پیا ہے تو اس کی خالہ زاد بیوی رضاعی طور پر اس کی بھانجی بن جاتی ہے، جس سے نکاح جائز نہیں، اس لیے فوراً اسے الگ کر دیا جائے اور بچے وغیرہ والدہ کے ہیں اور وہ اس کے پاس رہیں گے۔ البتہ والد سے بھی اس اولاد کے تعلقات استوار رہنے چاہئیں، اس قسم کا ایک واقعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی پیش آیا تھا۔ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام یحییٰ بنت اھاب سے شادی کر لی، شادی کے بعد ایک سیاہ فام عورت نے کہا کہ میں نے تم دونوں میاں بیوی کو دودھ پلایا ہے، میں نے اسے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں اور نہ تو نے پہلے ہمیں اس قسم کی خبر دی ہے۔ چنانچہ میں نے سواری لی اور فوراً مدینہ منورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنا ماجرہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب وہ عورت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے تو اسے صحیح تسلیم کیا جائے، لہٰذا تم اپنی بیوی سے الگ ہو جاؤ، چنانچہ اس کے بعد میں نے مکہ آتے ہی اپنی بیوی کو چھوڑ دیا اور اس نے آگے نکاح کر لیا تھا۔ [2]

 سوال میں ایک الجھن ضرور ہے کہ والدہ کو اگر اس بات کا علم تھا تو اس نے بوقت نکاح اس کا اظہار کیوں نہ کیا؟ لہٰذا اس بات کی اچھی طرح تحقیق کر لینی چاہیے یا پھر نانی اماں سے اس کی تصدیق کرالی جائے۔ (واللہ اعلم بالصواب)


[1]  صحیح بخاری، کتاب النکاح:۵۰۹۹۔

[2] مقدمہ فتح الباری۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:364

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ