السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی آدمی نے ایک عورت سے نکاح کیا، کافی دیر بعد پتہ چلا کہ وہ نکاح کے وقت حاملہ تھی، اس کے حق مہر کے متعلق شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے، کیا خاوند کے ذمے اس کی ادائیگی ضروری ہے جبکہ اس سے کچھ بچے بھی پیدا ہو چکے ہیں؟ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی عورت بوقت نکاح حاملہ تھی تو شرعی طور پر اس کا نکاح صحیح نہیں ہے، مطلقہ عورت کی عدت اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے رحم کے متعلق یقین ہو جائے، اگر حمل ہے تو وضع حمل تک انتظار کیا جائے گا، قرآن پاک میں ہے:
﴿وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١﴾[1]
’’ اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ ‘‘
ایسے حالات میں بیوی خاوند کے درمیان علیحدگی ضروری ہے۔ باقی رہا حق مہر کا مسئلہ تو اس کی حقدار بیوی ہے، خاوند کو واپس نہیں ملے گا، بشرطیکہ دونوں میں خلوت عمل میں آچکی ہو، یا وہ دونوں مباشرت کر چکے ہوں۔ لعان کرنے والے خاوند نے اپنے حق مہر کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’کہ تجھے کوئی مال (حق مہر) واپس نہیں ملے گا کیونکہ اگر تو سچا ہے تو نے اس کی شرمگاہ کو اپنے لیے حلال سمجھا، اس کے عوض تیرا حق مہر ختم ہوا، اگر تو نے ناجائز تہمت لگائی تو بالاولیٰ تو محرومی کے قابل ہے۔‘‘ [2]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: جس نے (نکاح کے بعد) ہمبستری کی ہے حق مہر اس کے لیے ہے۔ [3]
ان احادیث کی روشنی میں ہمیں راہنمائی ملتی ہے کہ سرے سے یہ نکاح نہیں ہوا، البتہ حق مہر خاوند کو واپس نہیں ملے گا کیونکہ حق مہر کے عوض اس نے فائدہ حاصل کر لیا ہے، بچوں کی نسبت اس خاوند کی طرف ہو گی۔ (واللہ اعلم)
[1] ۶۵/الطلاق: ۴۔
[2] صحیح بخاری، الطلاق: ۵۳۵۰۔
[3] صحیح بخاری، الطلاق، باب نمبر۱۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب