سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(423) مسئلہ رضاعت

  • 20072
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 725

سوال

(423) مسئلہ رضاعت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکی نے کسی عورت کا دودھ پیا، پھر اس لڑکی کے باپ نے اس عورت سے نکاح کر لیا، کیا لڑکی کا بھائی ، اس عورت کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے جو اس کے سابقہ خاوند سے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دودھ پینے والی لڑکی کے لیے عورت کے تمام رشتہ دار نسبی رشتوں کی طرح ہو جاتے ہیں یعنی عورت کا خاوند، اس کا باپ، خاوند کے بھائی اس کے چچا اور اس کی اولاد لڑکی کے بہن بھائی بن جاتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ [1]

 یہ حرمت کا سلسلہ دودھ پینے والے بچے یا بچی کے لیے ہے۔ اس کے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ سلسلہ قائم نہیں ہو گا۔ یعنی دودھ پینے والے بچے کے لیے وہ عورت ماں کے درجہ میں ہو گی جس کا بچے نے دودھ پیا ہے، اس بچے کے باقی بہن بھائی جنہوں نے اس کا دودھ نہیں پیا ان کا اس سے کوئی رشتہ دودھ کی وجہ سے قائم نہیں ہو گا، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ام یحییٰ بنت ابی اھاب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا تو ایک دوسری عورت نے شہادت دی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اب تم اسے کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جبکہ رضاعت کی اطلاع دے دی گئی ہے؟ ‘‘ چنانچہ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو جدا کر دیا تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا۔ [2]

 حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ اس عورت نے اپنے خاوند کے بھائی حضرت ظریب بن حارث رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تھا، اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دودھ کا رشتہ صرف دودھ پینے والے تک محدود رہتا ہے، اس کے بہن بھائیوں کو متاثر نہیں کرتا، اس بنا پر جس لڑکی نے کسی عورت کا دودھ پیا ہے تو اس لڑکی کا بھائی، عورت کی اس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے جو پہلے خاوند سے ہے، کیونکہ اس لڑکے کا اس عورت اور اس کی بیٹی سے کوئی حرمت کا تعلق قائم نہیں ہوا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، النکاح: ۲۶۴۴۔

[2]  بخاری الشہادات: ۲۶۶۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:360

محدث فتویٰ

تبصرے