سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(422) خاوند کے ذمہ بیوی کے حقوق

  • 20071
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 780

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکی کی انگلینڈ میں شادی ہوئی، کچھ عرصہ تک میاں بیوی اکٹھے رہے، اب عرصہ چھ سال سے خاوند لا تعلق ہے اور اخراجات وغیرہ بھی نہیں دیتا ہے بلکہ وہ لڑکی کے والدین کو دھمکیاں دیتا ہے۔ لڑکی تنگ آ چکی ہے اور آگے شادی کرنا چاہتی ہے لیکن خاوند طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہے، اس کے متعلق شریعت اسلامیہ کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم نے عائلی زندگی کے متعلق خاوند کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ ﴾[1]

’’ان بیویوں کے ساتھ اچھے طریقہ سے زندگی بسر کرو۔‘‘

 نیز اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ بیویوں کو تنگ کرنے کے لیے مت روکو، قرآن کریم میں صراحت ہے:

﴿وَّ لَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا١ۚ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١﴾[2]

’’ان بیویوں کو تکلیف پہنچانے کی خاطر مت روکے رکھو کہ تم ان پر زیادتی کرو اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرے گا۔‘‘

 بیوی کا نان و نفقہ بھی خاوند کے ذمے ہے، اس کے کھانے، پینے، لباس، رہائش اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے، اگر وہ کسی وجہ سے اسے ناپسند کرتا ہے اور نبھا کی کوئی صورت نہیں بنتی تو اسے طلاق دے کر فارغ کر دینا چاہیے، اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ اِنْ يَّتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖ١﴾[3]

’’اور اگر دونوں میاں بیوی الگ ہو جائیں تو اللہ اپنی مہربانی سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا۔‘‘

 اس کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً بیوی کا خاوند کے ساتھ بندھے رہنا ضروری نہیں، تکلیف دہ حالات میں علیحدگی ضروری ہے، اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ عورت کو کوئی اور اچھا خاوند نصیب کر دے اور مرد کو اس سے بہتر بیوی نصیب کر دے اور وہ حسن سلوک سے باہمی نبھا کر لیں، لیکن گومگو کی زندگی گزارنے کو شریعت نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا ہے، اگر خاوند اچھی معاشرت سے کام نہ لے اور نہ ہی طلاق دے کر اپنی بیوی کو فارغ کرے تو شریعت نے بیوی کو حق دیا ہے کہ وہ خلع لے کر فارغ ہو جائے، اس کی دو صورتیں ہیں۔

 دونوں میاں بیوی باہمی رضا مندی سے علیحدگی اختیار کر لیں، بیوی حق مہر واپس کر کے اس سے طلاق لے لے۔

 اگر باہمی رضا مندی سے یہ کام نہ ہو سکے تو بذریعہ عدالت علیحدگی کرائی جائے، اس کی صورت یہ ہے کہ عورت فیملی کورٹ میں درخواست دے کہ میں انتہائی نامساعد حالات سے دو چار ہوں، میرا خاوند مجھے آباد بھی نہیں کرتا اور طلاق بھی نہیں دیتا۔ مجھے حق انصاف دیا جائے، عدالت حسب ضابطہ کاروائی عمل میں لائے گی اور خاوند کو نوٹس جاری کرے گی، بالآخر عدالت تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرے گی، جس دن علیحدگی کا فیصلہ ہو جائے اس کے ایک ماہ بعد عورت آگے نکاح کرنے کی مجاز ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء:۱۹۔                        

[2] ۲/البقرۃ: ۲۳۱۔

[3]  ۴/النساء: ۱۳۰۔    

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:359

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ