سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(412) قریبی رشتوں میں نکاح کرنا

  • 20061
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1971

سوال

(412) قریبی رشتوں میں نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 جدید طبی انکشافات کے پیش نظر شادی کے متعلق یہ فلسفہ بیان کیا جاتا ہے کہ رشتہ داروں میں شادی کرنے سے موروثی بیماریاں بچوں میں منتقل ہو جاتی ہیں، اس لیے خونی رشتہ داروں میں شادی کرنا مناسب خیال نہیں کیا جاتا ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے معاشرہ میں شادی و نکاح کے لیے برادری سسٹم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے بلکہ اس سسٹم کی بت کی طرح پوجا کی جاتی ہے، شاید مذکورہ جدید طبی فلسفہ اسی بت پرستی کا رد عمل ہو، بہرحال قرآن و حدیث میں اس فلسفہ کو کوئی اہمیت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے سلسلہ میں درج ذیل معیار کی نشاندہی کی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت سے چار اسباب کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے، لہٰذا تم دیندار خاتون سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو اگر ایسا نہ کرو تو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘ [1]

 دینداری کے ساتھ ساتھ اگر خاندان میں سے ہو تو صلح رحمی ہو گی، لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم جدید طب کے انکشافات کی وجہ سے قطع رحمی کر لیتے ہیں، کیا اس جدید طب میں موروثی بیماریوں کا علاج نہیں ہے، اگر ہے تو اسے کیوں نہیں اختیار کیا جاتا؟ بہرحال شریعت نے اس کو کوئی حیثیت نہیں دی ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جگر گوشہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا تھا جبکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خونی رشتہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہماری طرح شبہات میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اسے آج کل کی زبان میں کزن میرج کہا جاتا ہے جس کی ممانعت کے لیے جدید طب کا سہارا لیا جاتا ہے شرعاً اس کی کوئی حقیقت نہیں ہمارے نزدیک اس طرح کی سوچ رکھنا قطع رحمی کو ترویج دینا ہے، اگر اس طرح کا کوئی اندیشہ ہو تو سدباب کے طور پر جدید طب سے استفادہ کرنا چاہیے اور اس کے علاج کے لیے کوئی اقدام کرنا چاہیے لیکن قطع رحمی کی اسلام اجازت نہیں دیتا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۹۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:353

محدث فتویٰ

تبصرے