السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے سسر کی دو بیویاں ہیں، جس بیوی کی لڑکی میرے عقد میں ہے وہ میری ساس ہے دوسری بیوی کے متعلق شرعی حکم کیا ہے کیا وہ بھی محرمات میں شمار ہو گی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیوی کی والدہ تو محرمات سے ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ …اُمَّهٰتُ نِسَآىِٕكُمْ ﴾[1]
’’اور تمہاری بیویوں کی مائیں بھی حرام ہیں۔‘‘
سسر کی دوسری بیوی، داماد کے لیے اجنبی ہے اور محرمات میں شامل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے محرمات کے بیان کے بعد فرمایا ہے:
﴿وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ ﴾[2]
’’اور ان کے علاوہ دیگر عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔‘‘
قرآن کریم کی اس قطعی نص سے صرف پھوپھی، بھتیجی، اور خالہ، بھانجی کو بیک وقت جمع کرنے کا استثناء احادیث میں آیا ہے، اس کے علاوہ کسی عورت کی حرمت کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے، پھر داماد اور سسر کی دوسری بیوی کے درمیان قرابت اور رشتہ داری نہیں یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی کی حیثیت رکھتے ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق سسر کی دوسری بیوی کو اپنے خاوند کے داماد سے پردہ کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ خلوت اور سفر کرنا جائز نہیں، جب کہ حقیقی ساس محرمات میں سے ہے اور اس کے ساتھ خلوت بھی کی جا سکتی ہے اور وہ اس سے پردہ بھی نہیں کرے گی بلکہ اکثر علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ کسی کے سسر کی بیوی اور اس کی دوسری بیوی کی بیٹی کو نکاح میں جمع کیا جا سکتا ہے امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ کسی شخص کی بیوی اور اس کی کسی اور بیوی سے بیٹی کو نکاح میں جمع کر لیا جائے۔ [3]
بہرحال بیوی کے والد کی دوسری بیوی محرمات سے نہیں ہے، جب سسر فوت ہو جائے یا وہ اسے طلاق دے دے تو اس سے نکاح جائز اور مباح ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۴/النساء: ۲۳۔
[2] ۴/النساء: ۲۴۔
[3] المغنی، ص: ۹۸،ج۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب