السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حق مہر کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کی کم از کم مقدار کتنی ہے؟ مسنون حق مہر کی وضاحت کریں اگر زندگی میں اسے ادا نہ کیا جائے تو کیا اللہ کے ہاں اس کا مؤاخذہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نکاح کے وقت عورت کے لیے حق مہر مقرر کرنا ضروری ہے اور اس کی ادائیگی واجب ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً١﴾[1]
’’جن عورتوں سے تم (نکاح کے بعد) فائدہ اٹھاؤ، انہیں ان کا مقرر کردہ حق مہر ادا کرو۔‘‘
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
﴿وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً١﴾[2]
’’عورتوں کو ان کے حق مہر راضی خوشی ادا کرو۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اسے کچھ دو تو انہوں نے عرض کیا: میرے پاس کچھ نہیں ہے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تیری زرہ کہاں ہے۔‘‘[3]ان آیات وحدیث کے پیش نظر حق مہر ضروری ہے، اس کی کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نکاح کے خواہش مند سے فرمایا تھا کہ جاؤ کچھ تلاش کر کے لاؤ خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو، اسے تلاش بسیار کے باوجود کچھ نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے؟ اس نے عرض کیا ہاں مجھے قرآن کی فلاں فلاں سورت یاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قرآن کی ان سورتوں کے عوض اس عورت کا مالک بنا دیا۔[4]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی آزادی کو ہی ان کا مہر بنا دیا تھا۔ [5]
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے نکاح کے وقت کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا بطور حق مہر دیا تھا۔ [6]
اسی طرح زیادہ سے زیادہ حق مہر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَيْـًٔا١﴾[7]
’’تم نے ان عورتوں میں سے کسی کو خزانہ بھی بطور مہر دیا تو اس سے طلاق کے وقت کچھ واپس نہ لو۔‘‘
شاہ حبشہ حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار ہزار درہم مہر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا تھا۔ [8]
شرعی حق مہر کی تعیین لوگوں کی طرف سے خود ساختہ ہے بلکہ یہ حسب توفیق ہونا چاہیے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہراتl کا حق مہر 500 درہم تھا۔ [9]
اس مقدار کو مسنون قرار دیا جا سکتا ہے، البتہ وہ حق مہر جو آسانی سے ادا کر دیا جائے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر و برکت کا باعث قرار دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بہترین حق مہر وہ ہے جسے ادا کرنا انتہائی آسان ہو۔‘‘ [10]
عورت اگر اپنی خوشی سے معاف کر دے تو جائز ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
﴿فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْٓـًٔا مَّرِيْٓـًٔ﴾[11]
’’اگر وہ خوشی سے کچھ حق مہر تمہیں چھوڑ دیں تو تم اسے مزے سے کھا سکتے ہیں۔‘‘
کچھ لوگ ایسے ہی ہیں کہ اگر عورت حق مہر معاف نہ کرے تو اسے طرح طرح کی تکلیفیں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنا حرام ہے۔ راجح یہی ہے کہ جو حق مہر طے ہو جاتا ہے اسے ادا کرنا ضروری ہے، اگر ادائیگی کے بغیر فوت ہو گیا تو اس کی متروکہ جائیداد سے حق مہر کی رقم منہا کر کے بقیہ رقم کو تقسیم کیا جائے گا، ہم لوگ اس سلسلہ میں افراط و تفریط کا شکار ہیں، شادی پر لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں لیکن حق مہر کے وقت شرعی حق مہر کی رٹ لگا دی جاتی ہے جس کی مقدار سوا بتیس روپے ہے، شریعت میں اس قسم کے شرعی حق مہر کا کوئی وجود نہیں ہے۔
[1] ۴/النساء: ۲۴۔
[2] ۴/النساء:۴۔
[3] ابوداود، النکاح: ۲۱۲۵۔
[4] صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۸۷۔
[5] صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۸۶۔
[6] ابوداود، النکاح: ۲۱۰۹۔
[7] ۴النساء:۲۰۔
[8] ابوداود، النکاح: ۲۱۰۷۔
[9] صحیح مسلم، النکاح: ۱۴۲۶۔
[10] ابوداود، النکاح: ۲۱۱۷۔
[11] ۴/النساء:۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب