السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایسے واقعات بے شمار ہوتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی نکاح پر رضا مند ہوتے ہیں لیکن لڑکی کا ولی راضی نہیں ہوتا، لڑکی اپنے گھر سے بھاگ کر اس سے نکاح کر لیتی ہے، کیا شرعاً ایسا نکاح جائز ہے، اگر ولی نکاح کے بعد راضی ہو جائے تو پھر اس نکاح کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو عورت بھی اپنے سر پرست کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر نکاح کرتی ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اسلام ایسے نکاح کو تسلیم نہیں کرتا جو ولی کی اجازت سے بالا بالا کیا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں۔‘‘[1]حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے، آپ نے تین مرتبہ یہ کلمات دہرائے۔‘‘ [2]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ ہی خود اپنا نکاح کرے، بلاشبہ وہ عورت بدکار ہے جس نے اپنا نکاح خود کر لیا۔‘‘ [3]ان احادیث کے پیش نظر ایسا نکاح نہیں ہوتا جو ولی کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہو۔ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ولی کی اجازت اور رضا مندی بنیادی شرط ہے، جب اس ناجائز نکاح کے بعد سر پرست رضا مند ہو جائے تو انہیں نیا نکاح کرنا ہو گا کیونکہ پہلا عقد شرعی شرائط کے مطابق نہ تھا، نکاح جدید سے قبل اس جوڑے نے جو زندگی گزاری ہے اس کی اللہ کے حضور معافی اور سچی توبہ کرنی چاہیے۔ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق گھر سے بھاگ کر عدالتی نکاح کرنا شرعاً درست نہیں ہے اور شریعت اسے تسلیم نہیں کرتی، اگر ولی راضی ہو گیا ہے تو انہیں دوبارہ نکاح کرنا ہو گا۔ (واللہ اعلم)
[1] مسند امام احمد، ص: ۳۹۴،ج۴۔
[2] مسند امام احمد: ۴۷،ج۶۔
[3] ابن ماجہ، النکاح: ۱۸۸۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب