سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(384) اخراجات پورے نہ ہونے پر بیوی کا مطالبہ طلاق

  • 20033
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 712

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر خاوند اپنی بیوی کے اخراجات پورے نہ کرے تو کیا وہ حاکم وقت سے شکایت کر کے اس سے خلاصی حاصل کر سکتی ہے یا وہ صبر کر کے خاوند کے پاس ہی رہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے خاوند کو بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ ﴾[1]

’’اور ان کے ساتھ معروف طریقہ سے گزر بسر کرو۔‘‘

اور انہیں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ﴾[2]

’’اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ۔‘‘

 ان آیا ت کا تقاضا ہے کہ خاوند، اپنی بیوی کی جائز ضروریات کو پورا کرے اور حسن معاشرت کا بھی تقاضا ہے کہ اسے کسی قسم کی تکلیف نہ دے، اس سے بڑھ کر کیا تکلیف ہو سکتی ہے کہ خاوند اپنی بیوی کی جائز ضروریات بھی پوری نہ کرے، ایسے حالات میں اپنی بیوی کو گھر میں رکھنا، اسے تکلیف دینے کا باعث ہے۔ جسے قرآن نے منع کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا١ۚ ﴾[3]

’’تم انہیں نقصان پہنچانے کے لیے مت روکے رکھو۔‘‘

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تو اپنی بیوی کو کھلا جو تو خود کھائے اور اسے لباس پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔‘‘[4]

 ان تصریحات کا تقاضا ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کے اخراجات پورے نہیں کرتا تو وہ حاکمِ وقت سے شکایت کر کے اس سے خلاصی حاصل کر سکتی ہے اور ایسے حالات میں ان کے درمیان تفریق کرا دینے کا مجاز ہے۔ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے متعلق فرمایا تھا جس کے پاس اپنی بیوی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا، آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے۔ [5]

 لیکن ہم ایسے حالات میں بیوی کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ صبر و قناعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صبر کے نتیجہ میں دنیا و آخرت میں بہتر بدلہ دے، ہاں اگر پانی سر سے گزر جائے اور حالات برداشت سے باہر ہو جائیں تو ایسے حالات میں خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے کی شرعاً اجازت ہے اور حاکم وقت کے پاس استغاثہ کر کے ایسے خاوند سے خلاصی حاصل کی جا سکتی ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء: ۱۹۔

[2] ۶۵/الطلاق: ۶۔

[3] ۲/البقرۃ: ۲۳۱۔ 

[4] ابوداود، النکاح: ۲۱۴۲۔

[5] بیہقی: ۴۷۰،ج۷۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:333

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ