السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ادارہ میں کسی خاتون نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے جو تلامذہ آتے تھے آپ ان کے متعلق اپنی بھانجیوں اور بھتیجوں کو کہتی تھیں کہ تم انہیں دودھ پلا دو تاکہ میرے ہاں آنے جانے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ان سے میرا شرعی حجاب اٹھ جائے، ہمارے ہاں خواتین میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے اور الجھن کا باعث بنا ہوا ہے، قرآن حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کا وہ دودھ جو اجنبی سے رشتہ پر اثر انداز ہوتا ہے اس کی دو شرائط حسب ذیل ہیں:
1) بچہ کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پئے، ایک دو دفعہ دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے، اس کی وضاحت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے۔ [1]
2) بچہ اس عمر میں دودھ پئے جب اس کی غذا کا انحصار صرف دودھ پر ہو، حدیث میں ہے کہ صرف وہی رضاعت حرمت ثابت کرتی ہے جو انتڑیوں کو کھول دے اور دودھ چھڑانے کی مدت (دو سال کی عمر) سے پہلے ہو۔[2] اس ضابطہ سے ایک استثنائی صورت احادیث میں بیان ہوئی ہے: حضرت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سالم رضی اللہ عنہ کو ہم نے لے پالک بنایا تھا، اب اس کے متعلق قرآن نے جو حکم دیا ہے وہ آپ کو معلوم ہے لیکن وہ ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا اور وہ بالغ ہو چکا ہے، میرے شوہر کو اس کا گھر میں آنا جانا ناگوار گزرتا ہے، ہماری الجھن کو حل فرمائیں، آپ نے فرمایا تم اسے اپنا دودھ پلا دو، اس نے کہا کہ وہ تو بڑا ہو چکا ہے، آپ نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ وہ بڑا ہو چکا ہے، تم اسے دودھ پلا دو،۔ چنانچہ اس حکم کے بعد حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا نے سالم رضی اللہ عنہ کو پانچ مرتبہ دودھ پلا دیا پھر وہ اس کے بچے کی طرح ہو گیا اور حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ناگواری بھی دور ہو گئی۔ [3]
اس حدیث کو بنیاد بنا کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جس آدمی کے متعلق اپنے پاس آنے جانے میں شرعی حجاب محسوس کرتیں اور اسے وہ آدمی پسند ہوتا تو اپنی بھانجیوں کو حکم دیتیں کہ تم اسے پانچ مرتبہ دودھ پلا دو اگرچہ وہ عمر میں کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ [4]
لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواج مطہرات نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس مؤقف سے اتفاق نہ کیا اور وہ اس قسم کی رضاعت کو غیر مؤثر خیال کرتیں تھیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر بچہ گود میں رہتے ہوئے دودھ پئے تو رضاعت سے حرمت ثابت ہو گی وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہتی تھیں اللہ کی قسم! ہمارے خیال کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے متعلق اجازت دی تھی تاکہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہ اسے دودھ پلا کر اپنا بیٹا بنا لے، اللہ کی قسم! اس عمر میں دودھ پینے والا کوئی شخص نہ ہمیں دیکھ سکے گا اور نہ ہی ہم اسے اپنے پاس آنے کی اجازت دیں گی۔ [5]
سوال میں ذکر کردہ بات صحیح نہیں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے تلامذہ کے متعلق یہ مؤقف رکھتی تھیں، بہرحال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ مؤقف تھا کہ بڑی عمر میں دودھ پینے سے بھی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے لیکن جمہور اہل علم نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ صرف دو سال سے کم عمر میں پلائے گئے دودھ سے ہی حرمت ثابت ہو گی جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے، انہوں نے درج ذیل وجوہ کی بنا پر اپنے مؤقف کو راجح قرار دیا ہے۔
1) دو سال کی عمر میں دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہونے کے متعلق متعدد احادیث ہیں جب کہ بڑے لڑکے کو دودھ پلانے کے متعلق صرف حضرت سالم رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ہے جس میں عموم کا کوئی پہلو نہیں۔
2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دیگر ازواج مطہراتl نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس معاملہ میں انہوں نے اختلاف کیا تھا۔
3) احتیاط کا پہلو بھی اسی میں ہے کہ بڑے آدمی کی رضاعت کا اعتبار نہ کیا جائے کیونکہ ایساکرنے سے زندگی میں بہت سی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
4) بڑے آدمی کو دودھ پلانے سے جسم کا گوشت پوست نہیں بنتا ہے حالانکہ ان چیزوں کو احادیث میں حرمت کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
5) ممکن ہے کہ یہ معاملہ صرف حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہو کیونکہ یہ چیز صرف اسی قصہ میں موجود ہے، ازواج مطہرات نے بھی اس امر کو بیان کیا ہے۔
6) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رضاعت اس وقت معتبر ہو گی جب بھوک کے وقت دودھ پیا جائے۔‘‘ [6]
ہمارے رجحان کے مطابق محتاط مؤقف یہ ہے کہ دودھ پلانے کے مسئلہ میں بچپن کا ہی اعتبار کیا جائے گا ہاں اگر حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا جیسا مسئلہ درپیش ہو مثلاً ایک آدمی جو انتہائی تعلق دار ہے، اس کا کسی عورت کے پاس جانا ضروری ہو اور اس عورت کا اس سے پردہ کرنا بھی دشوار ہو تو ایسے حالات میں اگر بڑی عمر کے آدمی کو کسی عورت نے دودھ پلا دیا تو پردہ اٹھا دینے کی حد تک اس کا دودھ قابل تاثیر ہو گا۔ نیز اس قسم کی ضرورت کو آدمی اور عورت تک ہی محدود رکھا جائے، ایسی صورت کے علاوہ دودھ پینے کے قابل تاثیر مدت دو سال تک ہی ہو گی، امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرح کا مؤقف اختیار کیا ہے۔ [7]
بہرحال اس مسئلہ میں وسعت کی قطعاً گنجائش نہیں ہے ہر صورت میں احتیاط کا پہلو مد نظر رکھا جائے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
[1] صحیح مسلم، الرضاع: ۱۴۵۲۔
[2] ترمذی: ۱۱۵۲۔
[3] ابوداود، النکاح: ۲۰۶۱۔
[4] ابوداود، حوالہ مذکور۔
[5] نسائی، النکاح: ۳۳۲۶۔
[6] صحیح بخاری، النکاح: ۵۱۰۲۔
[7] مجموع الفتاویٰ، ص: ۶۰،ج۳۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب