السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بیوی بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع لینے کی مجاز ہے؟ وہ کون سے حالات ہیں جن کی بنا پر خلع لینا جائز ہے؟ کیا خلع لینے کے لیے عورت کو اپنے والدین سے اجازت لینا ضروری ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب کتاب و سنت کی روشنی میں دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خلع، عورت کی طرف سے علیحدگی اختیار کرنے کا نام ہے، عورت کو چاہیے کہ کسی معقول وجہ کی بنا پر اپنے خاوند سے علیحدگی کا مطالبہ کرے، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو عورت کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔‘‘ [1]
اس حدیث کی بنا پر عورت کو بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود بلاوجہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے اگرچہ وہ ایسا کرنے میں گنہگار ہو گی۔ وہ حالات جن کے پیش نظر عورت خلع لینے میں حق بجانب ہوتی ہے وہ حسب ذیل ہیں:
1) شکل و صورت، سیرت و کردار یا دینی اقدار کے متعلق اپنے خاوند کو ناپسند کرے۔
2) عمر میں بڑا ہونے، کمزور ہونے یا قوت برداشت سے باہر ہونے میں بھی خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
یا اس طرح کی کوئی بھی وجہ ہو جس کی بنا پر وہ حقوق کی ادائیگی نہ کر سکتا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ﴾[2]
’’اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان پر (خلع میں) کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی جمیلہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ میں اپنے خاوند ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے خلق و کردار اور دینی اقدار کے متعلق کوئی عیب نہیں لگاتی، لیکن میں اسے برداشت نہیں کر سکتی ہوں، میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ اسلام میں رہتے ہوئے کفران نعمت کا ارتکاب کروں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں اسے خلع لینے کی اجازت دی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ حق مہر میں دیا ہوا باغ واپس کر دے۔ [3]
واضح رہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ان کی شکل وصورت پسند نہ تھی جیسا کہ بعض دیگر روایات میں اس کی صراحت موجود ہے، چونکہ یہ عورت کا ایک ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ ہے اس لیے اگر وہ عقلمند اور صاحب بصیرت ہو تو اسے خلع لینے کے لیے اپنے والدین سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، ہاں اگر ناسمجھ یا کم عمر یا واجبی سی فہم و بصیرت کی حامل ہو تو والدین یا اپنے بھائیوں سے اجازت لے اور اس اقدام پر ان سے مشورہ کرلے تاکہ آیندہ زندگی میں اس کے لیے کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو۔ (واللہ اعلم)
[1] مسند امام احمد،ص: ۲۷۷،ج۵۔
[2] ۲/البقرہ: ۲۲۹۔
[3] صحیح بخاری، الطلاق: ۵۲۷۳،۵۲۸۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب