السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کی وفات کے وقت اس کے تین بھتیجے اور ایک نواسی زندہ تھی، وراثت اس کے بھتیجوں کو مل گئی، کافی عرصہ بعد اس کی نواسی نے عدالت میں دعویٰ کر دیا ہے کہ نانا کی وراثت میں اس کا برابر کا حق ہے، قرآن و حدیث کے مطابق بتایا جائے کہ نواسی کو کچھ حصہ ملتا ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم کے ضابطہ وراثت کے مطابق میت کی جائیداد کے سب سے پہلے حقدار وہ ورثاء ہیں جن کے حصص قرآن یا حدیث میں مقرر ہیں۔ جنہیں اصحاب الفروض کہا جاتا ہے۔ ان سے بچا ہوا ترکہ عصبات کو ملتا ہے، صورت مسؤلہ میں نواسی نہ تو اصحاب الفروض سے ہے او رنہ ہی عصبات میں اس کا شمار ہوتا ہے بلکہ نواسی ذوالارحام میں شامل ہے جو اصحاب الفروض اور عصبات کی عدم موجودگی میں وارث ہوتے ہیں، مرحوم کی وفات کے وقت اس کے بھتیجے زندہ تھے۔ ایسے حالات میں ا س کی جائیداد کے وہ وارث ہیں کیونکہ ان کا شمار عصبات میں ہوتا ہے۔ ان کی موجودگی میں نواسی محروم ہے لہٰذا اس کا عدالت میں دعویٰ کرنا درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی اسے مرحوم کی بیٹی کے قائم مقام سمجھ کر وراثت کا حقدار قرار دیا جا سکتا ہے، حدیث میں ہے کہ حصے داروں کو حصہ دینے کے بعد میت کے قریبی مذکر رشتہ دار وارث بنتے ہیں۔
اس حدیث کے پیش نظر بھتیجے قریبی مذکر رشتہ دار ہیں جو وراثت کے حقدار ہوں گے نواسی ان میں شامل نہیں ہے اس بنا پر نانا کی جائیداد سے اس کا کوئی حق نہیں بنتا۔ (واللہ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب