السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں صرف اس کی والدہ زندہ ہے، کیا ایسے حالات میںترکہ کی حقدار اس کی والدہ ہو گی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علم میراث میں وہ چھوٹے سے چھوٹا ہندسہ جسے بنیاد بنا کر حصے تقسیم کیے جاتے ہیں، اسے اصل مسئلہ یا مخرج کہتے ہیں، اگر مقررہ حصے حقداروں کو دینے کے بعد اصل مسئلہ سے بچ جائے اور کوئی عصبہ وغیرہ نہ ہو تو باقی ماندہ حصے بیوی خاوند کے علاوہ دیگر ورثاء پر ہی لوٹادئیے جاتے ہیں، اس لوٹا دینے کے عمل کو ردّ کہا جاتا ہے، صورت مسؤلہ میں والدہ کا مقررہ حصہ ایک تہائی ہے، اصل مسئلہ تین سے ہو گا، والدہ کو مقررہ حصہ دینے کے بعد دو حصے بچ جاتے ہیں جو دوبارہ اسے دے دئیے جائیں گے۔ اس ردّ کے کئی ایک قاعدے ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ اگر مقررہ حصہ لینے والا ایک ہے اور کوئی دوسرا وارث زندہ نہیں تو تمام جائیداد اسی وارث کو دےدی جاتی ہے جیسا کہ مذکورہ صورت میں تیسرا حصہ اصحاب الفروض کی حیثیت سے اور باقی دو حصے ردّ کی حیثیت سے مل گئے ہیں، اگر ماں کے ساتھ کوئی دوسرا عصبہ وارث ہوتا تو باقی ماندہ ترکہ اسے ملنا تھا چونکہ دوسرا کوئی وارث موجود نہیں ہے، لہٰذا تمام جائیداد کی حقدار مرنے والے کی ماں ہے۔ (واللہ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب