سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(365) لے پالک کا حصہ

  • 20014
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1738

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا ایک بیٹا ہے اور میں نے اپنے پھوپھی زاد سے ایک بیٹا لے کر پالا ہے، اسے پڑھایا اور اس کی شادی کر دی ہے، اب میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنے باپ کے پاس چلا جائے، کیا وہ میری جائیداد سے حقدار ہو گا، کتاب و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی دوسرے کے بچے کو اپنی گود میں لینا اسے لے پالک کہا جاتا ہے، اس کے متعلق ہمارے معاشرہ میں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً جو آدمی کسی دوسرے کا بیٹا لیتا ہے اس کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے۔ سکول وغیرہ میں داخلہ کے وقت والد کے خانہ میں اپنا نام لکھواتا ہے، حالانکہ وہ اس کا نہ حقیقی بیٹا ہے اور نہ ہی پرورش کنندہ کو حقیقی والد قرار دیا جا سکتا ہے قرآن کریم نے اس کا سختی سے نوٹس لیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم ان متبنی بیٹوں کو ان کے باپ کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘ [1]

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو اپنا متبنی بنا لیا تو ہم لوگ انہیں زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے، جب کہ مذکورہ آیت نازل ہوئی تو ہم انہیں زید بن حارثہ ہی کہنے لگے۔ [2]

 اس طرح یہ بھی حکم ہے کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب نہ کرے، جس نے کسی دوسرے کو جان بوجھ کر اپنا باپ ظاہر کیا وہ کافر ہو گا۔ [3]

 اس طرح وراثت کا مسئلہ ہے کہ لے پالک بیٹا حقیقی بیٹے کا مقام نہیں لے سکتا، یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کے دو باپ ہوں، باپ وہی ہے جس کے نطفہ سے وہ پیدا ہوا ہے بشرطیکہ جائز نکاح سے ہو، دوسرا کوئی شخص نہ اس کا حقیقی باپ ہو سکتا ہے اور نہ وہ اس کا حقیقی بیٹا بن سکتا ہے۔ متبنی اپنے نقلی باپ کا وارث نہیں بن سکتا اور نہ باپ اس متبنی کا وارث ہو سکتا ہے۔ حقیقی بیٹا ہی باپ کا وارث ہو گا اور حقیقی باپ ہی بیٹے کا وارث قرار دیا جائے گا، ہر شخص اپنے متبنی کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر سکتا ہے اسی طرحِ متبنی بھی اپنے نقلی باپ کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کر سکتا ہے، عرب معاشرہ میں یہ رسم عام تھی جس کی اصلاح اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لے پالک کی مطلقہ بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہ سے نکاح کا حکم دیا جس کی تفصیل سورۂ احزاب آیت نمبر۳۷ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

 اس طرح پردہ کا مسئلہ ہے کہ لے پالک جس گھر میں رہتا ہے، اس میں جتنی بھی غیر محرم عورتیں ہیں وہ اس کے لیے لے پالک بن جانے سے محرم نہیں بن جائیں گے، مثلاً پرورش کنندہ کی بیوی اور اس کی بیٹیاں لے پالک کے لیے غیر محرم ہیں اور شرعی طور پر اس سے پردہ کرنے کی پابند ہیں، کھلی آزادی بہت سی معاشرتی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور عملاً ہمارے معاشرہ میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں، اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ پرورش کنندہ اپنی کسی بیٹی کا اس سے نکاح کر دے، بہرحال اسلام نے اس کی اس قدر حوصلہ افزائی نہیں کی ہے جتنی ہمارے ہاں خیال کی جاتی ہے لے پالک کسی صورت نقلی باپ کا وارث نہیں بن سکتا اور نہ ہی وہ اصل بیٹے کا مقام لے سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۳۳/الاحزاب:۵۔

[2] صحیح بخاری، التفسیر: ۴۸۸۲۔

[3]   صحیح بخاری، المناقب: ۳۵۰۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:315

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ