سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(358) بیوہ،والدین اور بہن بھائیوں کے حصص

  • 20007
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 567

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں سے بیوی، ماں، باپ، دو بہنیں اور دو بھائی ہیں، اس کی کوئی اولاد نہیں ، ہر ایک وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسؤلہ میں چونکہ میت لا ولد ہے اس لیے اس کی بیوی کو 1/4 حصہ ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ ﴾[1]

’’اگر تمہاری اولاد نہیں ہے تو تمہاری بیویوں کو جائیداد سے چوتھا حصہ ملے گا۔‘‘

 والدہ کو چھٹا حصہ دیا جائے گا کیونکہ میت کے متعدد بہن بھائی موجود ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ ﴾[2]

’’اگر میت کے متعدد بہن بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘

 باقی ترکہ کا حقدار اس کا باپ ہے کیونکہ وہ قریبی مذکر رشتہ دار ہے، حدیث میں ہے کہ مقررہ حصہ حقداروں کو دینے کے بعد باقی ترکہ قریبی مذکر رشتہ دار کو دیا جائے۔ [3]

 نیز قرآن کریم کے حکم کے مطابق اولاد نہ ہونے کی صورت میں والدین کو وارث بنایا جائے، پھر ماں کا حصہ بیان کر دیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی ماندہ ترکہ باپ کا ہے، میت کے بہن بھائی محروم ہیں کیونکہ قرآن کریم میں میت کے کلالہ ہونے کی صورت میں بہن بھائیوں کو ترکہ سے حصہ دیا گیا ہے اور کلالہ کی تعریف یہ ہے کہ جس کا اصل اور فرع موجود نہ ہو، چونکہ صورت مسؤلہ میں میت کا اصل باپ موجود ہے۔ لہٰذا وہ کلالہ نہیں، اس بنا پر بہن بھائی محروم ہوں گے۔ سہولت کے پیش نظر ترکہ کے بارہ حصے کر لیے جائیں ان میں سے 1/4 یعنی تین حصے بیوہ کو اور 1/6 یعنی دو حصے والدہ کو اور باقی سات حصے والد کو دئیے جائیں گے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء:۱۲۔

[2] ۴/النساء:۱۱۔

[3] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۳۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:310

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ