سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(351) مقتول کے مال کی تقسیم

  • 20000
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1306

سوال

(351) مقتول کے مال کی تقسیم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک قتل ہوا، مقتول کے ورثاء نے مبلغ دو لاکھ پچاس ہزار دیت لے کر قاتل معاف کر دیا، مقتول کے ورثاء میں والدہ، بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اب کیا دیت کی رقم وراثت کی طرح تقسیم ہو گی یا صرف بچوں کے لیے ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دیت لے کر قاتل کا خون معاف کر دینا اچھی بات ہے۔ قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے۔ اب دیت کی رقم ورثاء میں بطور ترکہ تقسیم ہو گی، صرف اولاد کے لیے مخصوص نہیں کی جائے گی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک دیت کی رقم مقتول کے ورثاء کے درمیان تقسیم کر دی جائے گی کیونکہ وہ قرابت دار ہیں، قرابت داروں سے جو بچ جائے وہ عصبہ رشتہ داروں کے لیے ہو گا۔‘‘[1]

 اس طرح حدیث میں ہے کہ اشیم ضبابی رضی اللہ عنہ قتل ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت سے اس کی بیوی کو وارث بنایا تھا۔ [2]

 ان مذکورہ احادیث سے معلوم ہو اکہ مقتول کی دیت بطور وراثت ہو گی، البتہ اگر قاتل قرابت داروں سے ہے تو اسے وراثت سے کچھ حصہ نہیں دیا جائے گا، کیونکہ اس نے اقدام قتل سے خود کو محروم کر لیا ہے، صورت مسؤلہ میں بیوہ کو آٹھواں، ماں کو چھٹا حصہ اور باقی اولاد میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ بیٹے کو بیٹی سے دو گنا ملے ۔ سہولت کے پیش نظر دیت کی رقم کو چوبیس میں تقسیم کر دیا جائے، ایک حصہ دس ہزار چار صد سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے ہے، تین حصے بیوہ کے لیے یعنی 31250/- روپے حصے والدہ کے لیے یعنی 41666/- روپے اور باقی سترہ حصے یعنی 177084/- روپے اولاد کے لیے ہیں۔ اس رقم کو اولاد میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ بیٹے کو بیٹی سے دو گنا حصے ملے یعنی 29514/- روپے فی لڑکی اور 59028/- روپے فی لڑکا تقسیم کر دئیے جائیں۔ مقتول کی دیت کے علاوہ باقی جائیداد بھی مذکورہ حصص کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔ (واللہ اعلم)


[1]  ابوداود، الدیات: ۴۵۶۴۔ 

[2] ابن ماجہ، الدیات: ۲۶۴۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:305

محدث فتویٰ

تبصرے