سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(346) بھائی،بہن اور بیوی کا حصہ

  • 19995
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 806

سوال

(346) بھائی،بہن اور بیوی کا حصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمیلہ نامی لڑکی کا نکاح اسلم نامی شخص سے ہوا، نکاح کے بعد اسلم کے والد شوکت علی فوت ہو گئے، جب کہ والدہ پہلے سے فوت شدہ تھیں، شوکت علی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، جائیداد چونکہ شوکت علی کے نام تھی اور تقسیم سے پہلے اس کے بیٹے اسلم کا انتقال ہو گیا، پس ماندگان میں بیوہ، ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں، شوکت علی کی جائیداد تین مرلہ ہیں، اس سے اسلم کی بیوہ جمیلہ کو کتنا حصہ ملے گا؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علم فرائض میں تقسیم در تقسیم کو مناسخہ کہتے ہیں، صورت مسؤلہ بھی اسی قسم سے ہے، اس میں متروکہ جائیداد کو دو مرتبہ تقسیم کیا جائے گا پہلی مرتبہ شوکت علی کی جائیداد تین مرلہ تقسیم ہوں گے پھر اس کے بیٹے محمد اسلم کا حصہ دوبارہ تقسیم ہو گا، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

 پہلی تقسیم: شوکت علی کے ورثاء دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں شریعت میں بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا حصہ دیا جاتا ہے، اس لیے جائیداد کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، ان میں سے دو، دو حصے بیٹے کو اور ایک، ایک بیٹی کو ملے گا، تین مرلہ سے ایک، ایک مرلہ دونوں بیٹوں کے لیے اور نصف نصف مرلہ ہر دو لڑکیوں کو دیا جائے گا۔

 دوسری تقسیم: محمد اسلم کو اپنے باپ کی جائیداد ایک مرلہ ملا ہے، اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء بیوہ جمیلہ، ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں، اسلم چونکہ لا ولد تھا اس لیے قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق بیوہ جمیلہ کو اس کی جائیداد سے چوتھا اور باقی 4/3اس کے بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ بھائی کو بہن سے دو گنا حصہ ملے۔ اس بنا پر محمد اسلم کا حصہ ایک مرلہ حسب ذیل تفصیل سے تقسیم ہو گا:

 بیوہ جمیلہ: 1/4 مرلہ بھائی  3/8 مرلہ بہنیں 3/16  بہن 3/16

 بھائی بہنوں کو والد سے بھی حصہ ملا تھا اس لیے ان کا مجموعی حصہ حسب ذیل ہو گا۔

 بھائی: 11/8=3/8+1 مرلہ  بہن 11/16=3/16+1/2

 دوسری بہن : 11/16=3/16+1/2 بیوہ جمیلہ 1/4

 آسانی کے لیے شوکت علی مرحوم کے تین مرلوں کو اڑتالیس حصوں میں پھیلا دیا جائے، ان اڑتالیس حصوں سے چار حصے محمد اسلم کی بیوہ جمیلہ کو، بائیس حصے اس کے بھائی اور گیارہ حصے اس کی ایک بہن اور گیارہ حصے ہی دوسری بہن کو دے دئیے جائیں۔ مرلوں کی تقسیم کے لیے پٹواری کی خدمات حاصل کر لی جائیں۔ (واللہ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:301

محدث فتویٰ

تبصرے