السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی فوت ہوا، اس کا ایک بچہ بہت چھوٹا تھا، اور اسے وراثت میں ڈھیروں مال ملا، کیا بچے کے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعی احکام اس انسان پر لاگو ہوتے ہیں جو عاقل، بالغ اور مسلمان ہو اور فرضیت زکوٰۃ کے لیے اس کا صاحب نصاب ہونا بھی ضروری ہے، بچے کے مال میں سے زکوٰۃ دینے یا نہ دینے کے متعلق فقہاء کا بہت اختلاف ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق بچے کے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ﴾[1]
’’ان کے اموال میں سے آپ زکوٰۃ وصول کریں اور اس کے ذریعے انہیں پاک کریں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں بالغ اور غیر بالغ کی کوئی قید نہیں ہے نیز زکوٰۃ سے مقصود غرباء و مساکین کا فائدہ کرنا ہے لہٰذا ان کا حصہ نکالنا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل روایات بھی بطور تائید پیش کی جاسکتی ہیں اگرچہ سند کے اعتبار سے ان میں کچھ ضعف پایا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی یتیم کا کفیل ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کے مال کو تجارت میں لگائے اسے یونہی نہ چھوڑے رکھے کہ اسے زکوٰۃ ختم کر دے۔‘‘ [2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یتیموں کے اموال کو تجارت میں لگاؤ، مبادا نہیں زکوٰۃ ختم کر دے۔‘‘ [3]
یہ دونوں روایات اگرچہ ضعیف ہیں تاہم بطور تائید انہیں پیش کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔
[1] ۹/التوبة:۱۰۳۔
[2] ترمذی، زکوٰة: ۶۴۱
[3] بیہقی، ص: ۱۰۷،۹،۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب