السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(1) زید کے والد ایک سرکاری ملازم ہیں وہ دفتری اوقات کی پابندی نہیں کرتے اور اپنے دفتری وقت کا تقریباً ۴۰ فیصد حصہ اپنے ذاتی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔ نیز کئی سال پہلے ایک کلرک کی غلطی سے ان کی ایک انکریمنٹ زائد لگ گئی تھی جس کی وجہ سے ان کو ہر ماہ تقریباً ۴ یا ۵ سو روپے اپنی اصل تنخواہ سے زائد ملتے ہیں زید جو کہ بالغ ہے ابھی طالب علم ہے اور اپنے اخراجات کے لیے ہر ماہ اپنے والد سے ۱۰۰۰ روپے لیتا ہے کیا قرآن وحدیث کی رو سے یہ پیسے زید کے لیے حلال ہیں یا حرام ؟ نیز اپنے گھر سے یعنی اپنے والد کی آمدنی سے کھانا پینا اورکپڑے وغیرہ سلوانا جائز ہے یا نہیں ؟
(2) بکر کا بھائی بیرون ملک ملازمت کرتا ہے۔ پاکستان سے بیرون ملک جاتے ہوئے بکر کے بھائی نے حکومت پاکستان سے غلط بیانی کی تھی کہ وہ پڑھائی کے لیے باہر جا رہا ہے تاکہ اسے پاکستان کی ملازمت سے چھٹی مل سکے پھر دوسرے ملک کے ائرپورٹ پر بھی غلط بیانی کی تھی کہ وہ یہاں سیروسیاحت کے لیے آیا ہے بعد میں اسے وہاں ملازمت مل گئی اوروہ وہاں ایک ہسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کر رہا ہے اب بکر کا بھائی بیرون ملک سے جو پیسے اپنی تنخواہ میں سے بکر کو یا اپنے والدین کو بھیجتا ہے کیا وہ پیسے بکر اور اس کے والدین کے لیے حلال ہیں یا حرام ؟ (اس بات کا علم نہیں ہے کہ بکر کا بھائی اپنی ملازمت احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے یا نہیں اگرچہ گمان یہی ہے کہ وہ ملازمت ذمہ داری سے انجام دیتا ہے)
(3) بنک میں غیر سودی اکاؤنٹ میں پیسہ رکھوانا جائز ہے یا نہیں جبکہ گھر میں پیسہ رکھنے سے چوری ہونے کا کوئی خاص خطرہ نہ ہو۔
(4) زید بیرون ملک سے بنک کے ذریعے بکر کے اکاونٹ میں کچھ رقم بھیجتا ہے کیا یہ جائز ہے نیز یہ رقم بکر کے لیے حلال ہے یا بنک کے ذریعہ ٹرانسفر ہونے کی وجہ سے حرام ہے ؟
(5) زید کے پاس کچھ روپے رزق حلال کے ہیں۔ ان میں اس نے کچھ روپے حرام کمائی کے بھی ملا دئیے اب تمام روپے باہم مل گئے کیا کسی طریقہ سے یہ ممکن ہے کہ حلال روپوں کو حرام روپوں سے الگ کیا جا سکے؟
(6) زید کے بنک اکاونٹ میں ۵۰۰ روپے تھے جو کہ حرام کی کمائی سے تھے بکر نے بیرون ملک سے کچھ پیسے بنک کے ذریعے اس کے اکاونٹ میں بھجوا دئیے یہ پیسے حلال کی کمائی سے تھے ۔ اب زید اپنے اکاونٹ سے یہ نیت کر کے پیسے نکلواتا ہے کہ وہ حلال کمائی والے پیسے نکلوا رہا ہے کیا یہ پیسے حلال ہوں گے یا اکاونٹ میں حرام پیسوں کی وجہ سے ساری رقم حرام ہو جائے گی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) اگر اصل تنخواہ دینے والوں کو تنخواہ دار کی ان کوتاہیوں کا علم ہے اس کے باوجود بلا رشوت دئیے اور بلا کسی سازباز کے وہ اس کو تنخواہ پوری دے رہے ہیں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کرتے تو بلاشبہ وہ تنخواہ اس کے لیے حلال ہے ورنہ چالیس فیصد حرام باقی حلال۔
(2) غلط بیانی اپنی جگہ جرم ہے اس سے وہ توبہ کرے باقی وہاں ملازمت کی تنخواہ حلال ہے بشرطیکہ اس کو حرام بنانے والی کوئی وجہ موجود نہ ہو۔
(3) جائز نہیں کیونکہ یہ سراسر اثم وعدوان میں تعاون ہے : ﴿وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾
(4) بکر کے لیے بیرون ملک سے بھیجی ہوئی رقم حلال ہے بشرطیکہ وہ بیرون ملک میں کسب حلال ہو البتہ بکر بنک میں اکاونٹ رکھنے کی وجہ سے مجرم وگناہگار ہے۔
(5) جتنے روپے حرام کے ملائے ہیں اتنے الگ کر دیں اور وہ جس کے ہیں اس کے حوالے کر دیں۔
(6) زید پانچ سو روپے میں دوہرا گناہگار ہے ایک تو وہ کمائی حرام دوسرے بنک اکاونٹ باقی بکر کے بیرون ملک سے حلال کمائی سے بھیجی ہوئی رقم حلال ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب