السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کر دیا، قاتل کے علاوہ اس کے دو بھائی، ایک بہن اور ماں زندہ ہے، مقتول کی وراثت کیسے تقسیم کی جائے گی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ قاتل جائیداد سے محروم ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قاتل کسی چیز کا بھی وارث نہیں بن سکتا۔‘‘[1]مقتول کے شرعی وارث دو بھائی، ایک بہن اور والدہ ہیں۔ والدہ کو اس کی جائیداد سے چھٹا حصہ ملے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ﴾[2]
’’اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘
ماں کا چھٹا حصہ نکال کر باقی ترکہ کو دو بھائیوں اور ایک بہن میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ بھائی کو بہن سے دو گنا حصہ ملے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِنْ كَانُوْۤااِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١ ﴾[3]
’’اگر میت کے پیچھے کئی بھائی اور بہنیں ہیں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔‘‘
سہولت کے پیش نظر مقتول کی جائیداد کے چھ حصے کر لیے جائیں، ایک حصہ ماں کو، دو دو حصے بھائیوں کو اور ایک حصہ بہن کو دے دیا جائے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
[1] ابوداود، الدیات: ۴۵۶۴۔
[2] ۴/النساء:۱۱۔
[3] ۴/النساء:۱۷۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب