السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے بھائی فوت ہوئے تو انہوں نے اپنے بچوں کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے جو میرے پاس محفوظ ہے، بچے ابھی نابالغ ہیں، کیا اس مال سے زکوٰۃ دینا ضروری ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کچھ اہل علم کا مؤقف ہے کہ نابالغ بچے کے مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے کیونکہ بلوغ سے قبل وہ شرعی احکام کا پابند نہیں ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’تین آدمیوں کا گناہ نہیں لکھا جاتا، سونے والے کا تاآنکہ وہ بیدار ہو جائے، بچے کا جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے اور پاگل کا حتیٰ کہ اسے افاقہ ہو جائے۔‘‘ [1]
ان حضرات کا کہنا ہے کہ نابالغ کے مال سے زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔ لیکن ہمارے رجحان کے مطابق نابالغ کے مال میں بھی زکوٰۃ فرض ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے وہ کسی نابالغ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتا، چونکہ غرباء اور مساکین کو فائدہ پہنچانا ہے لہٰذا مال کسی کا بھی ہو اس سے ان کا حق نکالنا ضروری ہے، ایک مشہور حدیث میں ہے کہ ان کے دولتمندوں سے زکوٰۃ لی جائے۔ یہ الفاظ عام ہیں، ان میں بالغ یا نابالغ کی کوئی تخصیص نہیں ہے اس لیے بچوں کے مال سے زکوٰۃ دینا ہو گی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس زکوٰۃ کی ادائیگی بچوں کے سرپرست کی ذمہ داری ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] مسند امام احمد،ص: ۱۱۴،ج۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب