السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی فوت ہوا ہے، اس کی دو بہنیں اور ایک بھتیجا ہے، والدین پہلے سے فوت شدہ ہیں، چھ ایکڑ زرعی زمین کو ان کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زندگی میں فوت ہونے والے رشتہ دار جائیداد سے محروم رہتے ہیں، انہیں کسی کے ترکہ سے کچھ نہیں ملتا، البتہ کسی کی وفات کے بعد جو ورثاء زندہ ہوں انہیں جائیداد سے بقدر حصہ وراثت ملتی ہے۔ صورت مسؤلہ میں والدین مرنے والے کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے لہٰذا انہیں کچھ نہیں ملے گا، البتہ مرتے وقت ایک ایک بھتیجا اور دو بہنیں زندہ تھیں، انہیں ترکہ سے درج ذیل تفصیل کے مطابق حصہ دیا جائے گا:
دو بہنوں کو کل جائیداد سے دو تہائی ملتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ١ ﴾[1]
’’اور اگر بہنیں دو ہوں تو ان کو ترکہ کا دو تہائی ملے گا۔‘‘
جائیداد سے دو تہائی نکالنے کے بعد جو باقی بچے وہ بھتیجے کا حق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘ [2]
میت کا قریبی رشتہ دار اس کا بھتیجا ہے، آسانی کے پیش نظر جائیداد کے تین حصے کیے جائیں، دو حصے میت کی بہنوں کے لیے اور ایک حصہ اس کے بھتیجے کے لیے ہے، چونکہ اس کا ترکہ چھ ایکڑ زرعی زمین ہے، اس لیے چار ایکڑ دو بہنوں کے لیے یعنی دو بہنیں دو، دو ایکڑ کی حقدار ہیں، اور باقی دو ایکڑ اس کے بھتیجے کو دئیے جائیں۔ (واللہ اعلم)
[1] ۴/النساء: ۱۷۴۔
[2] بخاری، الفرائض:۶۷۳۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب