السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کی دو بیویاں ہیں، ایک تو اس کی زندگی میں فوت ہو گئی، اس کے بطن سے پیدا ہونے والی ایک بیٹی زندہ ہے، اس کی دوسری بیوی لاولد ہے، اب وہ آدمی فوت ہو چکا ہے اور اس کا ایک بھائی بھی زندہ ہے، جائیداد کی تقسیم کیسے کی جائے گی، کیا بیوی کو لا ولد ہونے کی وجہ سے چوتھا حصہ ملے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علم فرائض میں جو حصص میں کمی بیشی ہوتی ہے وہ میت کے ساتھ پسماندگان کی نسبت کی وجہ سے ہے، یعنی خاوند جو فوت ہوا ہے اگر وہ صاحب اولاد تھا تو اس کی بیوی یا بیویوں کو آٹھواں حصہ ملتا ہے اور اگر وہ لا ولد ہے تو ایک بیوی یا متعدد بیویوں کو چوتھا حصہ دیا جاتا ہے، اس صورت میں بیوی کے صاحب اولاد یا لا ولد ہونے سے ان کے حصص پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، اسی طرح جو وارث متوفیٰ کی زندگی میں فوت ہو جائے وہ بھی ترکہ سے کچھ حصہ نہیں پاتا، اس وضاحت کے بعد صورت مسؤلہ میں جائیداد کی تقسیم حسب ذیل طریقہ سے ہو گی۔
٭ میت کی بیٹی کونصف ترکہ ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ ﴾[1]
’’اگر ایک بیٹی ہے تو اسے ترکہ سے نصف ملے گا۔‘‘
٭ لا ولد بیوی کو کل جائیداد سے آٹھواں حصہ دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾[2]
’’اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کو ترکہ سے آٹھواں حصہ دیا جائے۔‘‘
٭ جو بیوی، خاوند کی وفات سے پہلے فوت ہو چکی ہے، اسے کچھ بھی نہیں ملے گا بلکہ وہ محروم ہے۔ آسانی کے پیش نظر کل جائیداد کے چوبیس حصے کر لیے جائیں، ان میں نصف یعنی بارہ حصے لڑکی کے لیے ہیں اور کل جائیداد کا آٹھواں حصہ یعنی تین حصے اس کی لا ولد بیوی کو دئیے جائیں، بارہ اور تین کے مجموعہ پندرہ کو چوبیس سے منہا کر کے باقی نو حصے بھائی کو مل جائیں گے، اگر میت کے ذمہ قرض ہے یا اس نے وصیت کی ہے تو قرض کی ادائیگی اور وصیت کا اجراء تقسیم سے پہلے ہو گا جب کہ وصیت کسی صورت میں ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو، مذکورہ تفصیل کے مطابق جائیداد کو تقسیم کیا جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۴/النساء:۱۱۔
[2] ۴/النساء:۱۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب