السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے نانا فوت ہو گئے ہیں ان کے پس ماندگان میں سے بیوہ، دو بیٹیاں، ایک حقیقی بھائی، ایک حقیقی بہن زندہ ہیں، ان ورثاء میں ان کی وراثت کس طرح تقسیم ہو گی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب سے مطلع فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسؤلہ میں بیوہ کے لیے کل جائیداد کا آٹھواں حصہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ ﴾ [1]
’’اور اگر اولاد ہے تو پھر ان بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘
دو بیٹیوں کو کل جائیداد سے دو تہائی ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ ﴾[2]
’’اور اگر لڑکیاں (دو یا) دو سے زائد ہوں تو ان کو ترکہ سے دو تہائی حصہ ملے گا۔‘‘
مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے گا وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کے لیے ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دو اور جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘ [3]
اس صورت میں میت کا مذکر قریبی رشتہ دار حقیقی بھائی، لیکن اس کے ساتھ اس کی حقیقی بہن بھی موجود ہے لہٰذا وہ بھی باقی کے ساتھ ترکہ کی حقدار ہے البتہ ان میں تقسیم اس طرح ہو گی کہ مرد کو عورت کے مقابلہ میں دو گنا حصہ دیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاِنْ كَانُوْۤا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١﴾[4]
’’اور اگر میت کے کئی بہن بھائی ہوں یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے ہوں تو مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔‘‘
سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کے چوبیس حصے کر لیے جائیں، ان میں سے آٹھواں حصہ یعنی تین حصے بیوہ کو اور دو تہائی یعنی سولہ حصے دونوں بیٹوں کو پھر باقی پانچ حصے حقیقی بھائی اور بہن کے ہیں لیکن یہ پانچ حصے بہن بھائی میں پورے پورے تقسیم نہیں ہوتے ہیں اس کے لیے حصوں کو زیادہ کر لیا جائے اور تین سے ضرب دے کر چوبیس کے بجائے ۷۲ حصے بنا لیے جائیں۔ پھر ہر ایک کے حصے کو تین سے ضرب دی تو درج ذیل صورت بن جائے گی۔
بیوہ =3×3=9، دو بیٹیاں 16×3=48 چوبیس حصے فی بیٹی، بہن بھائی 5×3=15بھائی کو 10 اور بہن کے لیے پانچ حصے ہوں گے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۴/النساء:۱۲۔
[2] ۴/النساء:۱۱۔
[3] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۳۵۔
[4] ۴/النساء:۱۷۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب