السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے والد گرامی جیل میں ہیں، ان کی رہائی کے لیے ایک لاکھ روپیہ درکار ہے اگر یہ رقم نہیں دی جاتی تو مزید دو سال قید بڑھ سکتی ہے، میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے اور مجھے کوئی قرض بھی نہیں دیتا، ایک شخص اس شرط پر قرض دینے کے لیے تیار ہے کہ تین سال کے بعد اسے دو لاکھ روپے واپس کیے جائیں، کیا اس قسم کی مجبوری کے پیش نظر سود پر قرض لیا جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سودی کاروبار یا لین دین اس قدر سنگین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے کام کرنے والے کو سخت وارنگ دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ ﴾[1]
’’اگر تم اس (سودی لین دین) سے باز نہیں آؤ گے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
اور احادیث میں سود لینے اور دینے کو اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، لہٰذا ایک مسلمان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اسے کسی صورت میں اختیار نہ کرے، صورت مسؤلہ میں کوئی ایسا عذر نہیں جس کی بنیاد پر سود پر قرض لینے کو جائز قرار دیا جائے، جان بچانے کے لیے مردار کھانے کی اجازت قرآن نے دی ہے، لیکن صورت مسؤلہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق کسی مالدار سے قرض لے کر اپنے باپ کو رہائی دلائی جا سکتی ہے لیکن اس رہائی کے لیے سود پر قرض لینا شرعاً درست نہیں ہے، ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ دو سال تک مزید قید برداشت کر لی جائے لیکن اس حرام کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۲/البقرة:۲۷۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب