سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(308) قبضہ کیے بغیر چیز آگے بیچنا

  • 19957
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1653

سوال

(308) قبضہ کیے بغیر چیز آگے بیچنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

منڈیوں میں خریدوفروخت کی اکثر یہ صورت سامنے آتی ہے کہ آدمی کوئی چیز خریدتا ہے اور اسے مالک کے پاس ہی چھوڑ دیتا ہے، اسی حالت میں اس کو آگے فروخت کر دیا جاتا ہے، کیا اس طرح خریدوفروخت کرنا جائز ہے، اگر ناجائز ہے توکیوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 تمام فقہاء عظام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ کسی چیز کو خریدنے کے بعد اس پرقبضہ کرنے سے پہلے پہلے اسے فروخت کرنا ناجائز ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے: ’’جس نے اناج خریدا وہ اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک اسے ناپ تول کر پورا نہ کر لے۔‘‘ [1]

 ایک روایت میں وضاحت ہے کہ اسے اپنے قبضے میں لیے بغیر آگے فروخت نہ کرے۔[2] اس حدیث میں اناج اور غلے کا حکم بیان ہوا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کھانے کی اشیاء کے علاوہ ہر چیز کا یہی حکم ہے۔[3] بلکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے:

’’تم جب بھی کوئی چیز خریدو تو اس پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت نہ کرو۔‘‘ [4]

 امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ میں جہاں سے سامان خریدا ہے وہیں پر بیچنے سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ تاجر حضرات اپنا سودا اٹھا کر اپنے اپنے گھروں میں لے جائیں۔ [5] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ’’خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کرنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ خریدار ایسی صورت میں اسے قبضے میں لینے سے عاجز ہوتا ہے، ممکن ہے فروخت کنندہ اس چیز کو اس کے حوالے کرے یا نہ کرے، خاص طور پر جب وہ دیکھ رہا ہو کہ خریدار کو اس سے بہت نفع ہو رہا ہے تو وہ اس بیع کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا، خواہ انکار کرے یا فسخ بیع کے لیے کوئی حیلہ تلاش کرے۔‘‘ [6]

 بہرحال آج کل منڈیوں میں جس طرح خریدوفروخت ہوتی ہے کہ ایک چیز خرید کر وہیں اسے آگے فروخت کر دیا جاتاہے، خریدار اس پر قبضہ نہیں کرتا، یا اصل مالک سے پرچی حاصل کر کے اسے فروخت کر دیا جاتا ہے، شرعی طور پر ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1] بخاری، البیوع: ۲۱۲۶۔              

[2] مسلم، البیوع: ۱۵۲۵۔  

[3]  جامع ترمذی، البیوع: ۱۲۹۱۔

[4] مسند امام احمد، ص: ۴۰۲، ج۲۔ 

[5] ابو داود، البیوع: ۳۴۹۸۔

[6] اعلام الموقعین، ص؛ ۱۳۴، ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:272

محدث فتویٰ

تبصرے