بینک والے سیونگ کھاتے میں رکھے ہوئے سرمایہ پر منافع دیتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے کاروبار میں لگاتے ہیں،کیایہ منافع سود کے ضمن میں آتا ہے ،اس کے متعلق تفصیلی فتویٰ درکار ہے۔
بینک میں عام طور پر ہردو قسم کے کھاتے ہوتے ہیں،ایک کرنٹ کھاتہ اور دوسرا سیونگ کھاتہ،کرنٹ میں رکھی گئی رقم پر بینک کسی قسم کا نفع دیتا اور نہ ہی اس سے زکوٰۃ کی رقم کاٹی جاتی ہے ،البتہ بینک اس رقم کو اپنے استعمال میں ضرور لاتا ہےاور اسے دوسروں کو سود پر دیتا ہے،ہمارے رجحان کے مطابق اس کھاتے کے ذریعے گناہ اور ظلم پر بینک کا تعاون کیاجاتا ہے جس کی قرآن میں ممانعت ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"تم نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔"
اگرچہ کرنٹ کھاتے میں رکھی ہوئی رقم پر اسکے اصل مالک کوکچھ نہیں دیا جاتا تاہم اس رقم کو سودی کاروبار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،بینک میں دوسرا کھاتہ سیونگ کہلاتا ہے،اس رقم پر اصل مالک کو سود بھی دیاجاتا ہے جسے بینک والے منافع کا نام دیتے ہیں لیکن نام کی تبدیلی سے حقیقت نہیں بدل جاتی،لوگوں کو پھانسنے کے لیے اس کھاتے کے مختلف نام ہیں مثلاً شراکتی کھاتہ،نفع اور نقصان کی بنیاد پر شراکت داری،اس کامشہور نامP.L.S ہے،اس کھاتے میں رکھی ہوئی رقم کوآگے بھاری سود پر دوسروں کو دیا جاتا ہے پھر اس سود کو ایک خاص شرح سے اصل مالک کے کھاتے میں جمع کردیا جاتا ہے،اگر چہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کھاتے میں جمع شدہ رقم کو کاروبار میں لگایا جاتا ہے اور اکاؤنٹ ہولڈر کی حیثیت ایک شریک کی ہوتی ہے۔لیکن زمینی حقائق اس دعویٰ کے منافی ہیں،کیونکہ اس میں سودی رقم کو مارک اپ جیسے حسین الفاظ کانام دیا گیا ہے،بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق سیونگ کھاتے میں رکھی ہوئی رقم پر ملنےوالا"منافع" سود ہی ہے،ایک مسلمان کواس سے اجتناب کرنا ضروری ہے،اگر حکومت واقعی سودی نظام ختم کرنا چاہتی ہے تو نیک نیتی کے ساتھ اس پورےنظام کو بدلنے کا تہیہ کرے جو خالص سود پر مبنی ہے تاکہ مسلمان پوری یکسوئی کے ساتھ غیر سودی بینکاری کو کامیاب بنانے میں حصہ لیں،اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔(آمین)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصوابماخذ:مستند کتب فتاویٰ