السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے پلاٹوں کی خریدوفروخت اس طرح کی جاتی ہے کہ صرف بیعانہ کی ادائیگی کر کے پلاٹ کو آگے بیچ دیا جاتا ہے اور اصل مالک تیسرے آدمی کے نام رجسٹری کرا دیتا ہے، جس نے بیعانہ ادا کیا ہوتا ہے وہ صرف بیعانہ کی ادائیگی پر اس سے نفع کما لیتا ہے کیا اس صورت میں یہ کاروبار جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کاروبار کی ذکر کردہ صورت شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ شریعت نے ایسی چیز کی خریدوفروخت سے منع کیا ہے جو فروخت کرتے وقت اس کے پاس موجود نہ ہو یا اس کی ملکیت نہ ہو جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چیز تیرے پاس نہیں اس کا فروخت کرنا جائز نہیں۔‘‘ [1]
اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس ایک شخص آتا ہے۔ وہ مجھ سے کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے، میں سودا کر لیتا ہوں اور وہ چیز اسے بازار سے خرید کر دے دیتا ہوں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چیز تمہارے پاس موجود نہیں اسے فروخت نہ کرو۔‘‘ [2]
اس حدیث میں وضاحت ہے کہ کسی ایسی چیز کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے جو فروخت کے وقت بائع کی ملکیت نہ ہو اس طرح اگر کسی نے کوئی چیز خرید ی ہے تو جب تک اس پر قبضہ نہ ہو جائے اسے آگے کسی کو فروخت نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے قبضے میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کرو۔‘‘ [3]
اسی طرح حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید کردہ سودے کو اسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے جہاں اسے خریدا گیا ہے حتی کہ تجار حضرات اسے اپنے گھروں میں لے جائیں، یعنی اس پر قبضہ کرنے کے بعد اسے آگے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ [4]
صورت مسؤلہ میں خریدار، مالک کو پلاٹ کا زر بیعانہ ادا کرتا ہے، جو صرف اعتماد کی علامت ہے کہ میں اس کا خریدار ہوں، آپ اسے آگے فروخت نہ کریں، پھر طے شدہ مدت پر پوری رقم ادا کر کے اسے خریدا جاتا ہے اور اس کی رجسٹری یا انتقال سے اس کی ملکیت میں آتا ہے، جب تک وہ پلاٹ، خریدار کی ملکیت نہیں ہوتا اور وہ اس پر قبضہ نہیں کر لیتا وہ اسے آگے فروخت کرنے کا مجاز نہیں ہے، اس لیے پیش کردہ صورت میں صرف بیعانہ ادا کر کے اسے آگے فروخت کر دینا شرعاً جائز نہیں ہے، پہلے وہ اس پلاٹ کو اپنے نام کرائے اور اس پر قبضہ کر کے پھر اسے آگے فروخت کرے، اس طرح فیکٹری سے کھل بنولہ خریدا جاتا ہے۔ رقم ادا کر کے اس پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ فیکٹری میں رہنے دیا جاتا ہے مالک سے صرف پرچی یا رسید لی جاتی ہے، خریدار اس پرچی کو ایک تیسرے آدمی کو فروخت کر دیتا ہے اس طرح اس رسید کی ہی خریدوفروخت ہوتی رہتی ہے، جبکہ اصل مال فیکٹری میں پڑا ہے، اسے نہ کسی نے دیکھا اور نہ ہی اس پر قبضہ کیا، اس طرح کا کاروبار، احادیث بالا کی روشنی میں ناجائز ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واﷲ اعلم)
[1] مسند امام احمد، ص: ۱۸۷، ج۲-
[2] ابو داود، البیوع: ۳۵۰۳۔
[3] مسند امام احمد، ص: ۴۰۳، ج۳۔
[4] مستدرک حاکم، ص: ۴۰، ج۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب