سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(305) گروی چیز کو اپنے استعمال میں لانا؟

  • 19954
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 626

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے کسی سے قرض وصول کرنا ہے، اس نے میرے پاس اپنا مکان رکھا ہے جس کی مالیت تقریباً دس لاکھ ہے، جبکہ قرض پانچ لاکھ ہے، کیا میں اس گروی شدہ مکان کو اپنے استعمال میں لا سکتا ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے وغیرہ کی محتاج نہیں ہے تو کسی حالت میں اس سے فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا اور اگر وہ ایسی چیز ہے جو خرچے کی محتاج ہے تو خرچ کے عوض اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رہن رکھے ہوئے جانور پر اخراجات کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور دودھ دینے والے جانور کا دودھ بھی پیا جا سکتا ہے اور جو شخص سواری کرتا ہے یا دودھ پیتا ہے وہی اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ [1]

 اس حدیث کی بنا پر مکان، پلاٹ اور زمین وغیرہ خرچے کی محتاج نہیں ہے، اس لیے ان چیزوں کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، ہاں اگر وہ اجازت دے دے تو اسے اپنے استعمال میں لایا جا سکتا ہے کیونکہ گروی رکھی ہوئی چیز کا اصل مالک تو وہی ہے جس نے قرض لیا ہے اور اس کے منافع کا بھی وہی مالک ہے، کسی دوسرے کے لیے اس سے منافع لینا جائز نہیں ہے الا یہ کہ وہ خود اس کی اجازت دے دے تو جس کے پاس گروی رکھا گیا ہے وہ اسے استعمال کر سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی صورت یہ ہونی چاہیے کہ اگر مکان کا ماہانہ کرایہ پانچ ہزار ہے تو سال کے بعد ساٹھ ہزار اس کے قرض سے منہا کر دیا جائے، اس طرح دونوں کو فائدہ ہو گا، قرض لینے کا بوجھ بھی ہلکا ہو گا اور دینے والے کو ایک سہولت میسر ہو گی، بہرحال صورت مسؤلہ میں ہمارے نزدیک یہی صورت ہونی چاہیے کہ مکان کا کرایہ طے کر لیا جائے اور گروی شدہ مکان میں رہائش رکھ لی جائے، جب قرض کی ادائیگی ہو تو قرض سے اتنی رقم منہا کر دی جائے جس قدر اس نے مکان کو استعمال کیا ہے اور معروف طریقہ کے مطابق اس کا کرایہ اس صورت میں ادا کیا جائے۔ (واﷲ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الرھن: ۲۵۱۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:269

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ