سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(302) طے شدہ منافع کے عوض رقم دینا

  • 19951
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 984

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک دوست نے مجھ سے کچھ رقم کا مطالبہ کیا ہے کہ میں آپ کو کاروبار میں تو شریک نہیں کر سکتا البتہ ہر چھ ماہ بعد کل رقم کا پانچ فیصد ادا کرتا رہوں گا، کیامیرے لیے جائز ہے کہ طے شدہ منافع کے عوض میں اسے کاروبار کے لیے کچھ رقم دوں، کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں، کیا ایسا کرنا سود تونہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کاروبار کی کئی ایک صورتیں رائج ہیں، ایک یہ ہے کہ کوئی آدمی دوسرے کو سرمایہ فراہم کرتا ہے اور دوسرا اس سرمایہ سے کاروبار کرتا ہے، پھر ایک خاص شرح کے مطابق منافع میں دونوں شریک ہوتے ہیں، کاروبار کی اس شکل کومضاربت کہتے ہیں، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن صورت مسؤلہ میں کاروبار کی جو صورت بیان کی گئی ہے اس میں اور بینک کے سود میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ بینک صارفین کورقم جمع کرانے کے بعد ایک طے شدہ شرح کے مطابق سود دیتا ہے جسے وہ منافع کا نام دیتے ہیں۔ کسی چیز کا نام بدل دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدل جاتی، جس آدمی نے رقم فراہم کی ہے اسے چاہیے کہ کاروبار کے نفع اور نقصان میں برابر کا شریک ہو لیکن دی ہوئی رقم پر ایک خاص شرح کے مطابق ’’نفع‘‘ لینا خالص سود ہے۔ مثلاً اگر اس نے مبلغ پچاس ہزار روپیہ دیا ہے اور طے پایا ہے کہ چھ ماہ بعد اس رقم پر پانچ فیصد ’’نفع‘‘ دیا جائے گا، اس طرح چھ ماہ بعد پچاس ہزار کے ساتھ پانچ ہزار مزید شامل ہو جائے گا، اب اس کاروبار میں اوربینک کے سود میں کیا فرق ہے؟ ہمارے نزدیک اس انداز سے اپنی رقم پر خاص شرح فی صد کے اعتبار سے نفع لینا خالص سود ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے حرام کہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اﷲ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام کہا ہے۔‘‘[1]نیز فرمایا: ’’اگر تم اس کاروبار سے باز نہیں آؤ گے تو اﷲ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر اس سے توبہ کر لو تو تم صرف اپنے اصل زر کے حقدار ہو۔‘‘[2]بہرحال تجارت اور سود میں بہت فرق ہے، دوچیزیں تو بہت نمایاں ہیں۔

1)  سود میں طے شدہ شرح کے مطابق منافع یقینی ہوتا ہے جبکہ تجارت میں نفع کے ساتھ نقصان کا بھی احتمال ہوتا ہے۔

2) مضاربت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس میں مفاد مشترکہ ہوتا ہے جبکہ تجارتی سود میں سود خور کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔

 صورت مسؤلہ میں طے شدہ شرح کے مطابق نفع لینا صریح سود ہے ایک مسلمان شخص کو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔


[1]  ۲/البقرہ: ۲۷۵۔ 

[2] ۲/البقرة: ۲۷۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:267

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ