السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسئلہ احتکار کی تفہیم کے لیے آپ کی رہنمائی مطلوب ہے ۔ وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں :
(1) احتکار کسے کہتے ہیں اور کیا احتکار ہر قسم کا ہر قسم کے حالات میں ناجائز ہے ؟
براہ کرم دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیں ۔ ایک مفتی صاحب سے اسی سلسلہ میں رابطہ ہوا تھا ۔ انہوں نے فرمایا کہ اموال تجارت کو روک رکھنا اس غرض سے کہ جب اور مہنگائی ہو گی تو بیچیں گے جبکہ قحط کی صورت پیدا ہو چکی ہو انہوں نے مزید صراحت فرمائی کہ اگر قحط کی کیفیت پیدا نہ ہوئی ہو تو پھر احتکار ناجائز نہ ہو گا یعنی انہوں نے قحط برپا ہونے سے پہلے پہلے احتکار کو جائز قرار دیا ہے ممانعت احتکار کا اطلاق بصورت قحط ہو گا ۔ اور قحط کی تعریف یہ بیان کی کسی چیز کا بازار میں ناپید ہونا قحط ہے نہ کہ ایسی حالت پر قحط کا اطلاق ہو گا کہ چیز بازار میں کھلے عام مل تو رہی ہے اگرچہ نرخ نہایت بڑھتے جا رہے ہوں ان صاحب سے دلیل طلب کی کہ احادیث مبارکہ سے ممانعت احتکار اپنے عموم پر ثابت ہوتی ہے آپ اس عموم کی تخصیص قحط کے زمانہ کے ساتھ کس قرینہ سے اخذ کرتے ہیں ۔ تو انہوں نے اپنے موقف کے حق میں عقلی دلائل دئیے اور شارحین کے قول بیان فرمائیے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر بجا ۔ لیکن ہمیں تو اتنا علم ہے کہ آپﷺ کے امر یا نہی سے وجوب ثابت ہوتا ہے تاوقتیکہ کوئی قرینہ صارفہ خارجی یا داخلی آپﷺ کے فرمان کو وجوب سے نہ نکال دیوے یا وجوب کی تخصیص ثابت نہ ہوجائے ورنہ آپﷺ کے فرمان سے جو وجوب ثابت ہو گا وہ اپنے عموم پر ہی محمول کیا جائے گا چاہے ہماری عقل مانے یا نہ مانے ۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ فرمان نبویﷺ ہے چیزیں جہاں سے خریدی جائیں وہیں نہ بیچی جائیں یعنی خرید کردہ جگہ سے مال ہٹا دینا ضروری ہے ۔ اس مسئلہ کی وضاحت بھی درکار ہے ۔
مثلاً ایک شخص کی منڈی میں دوکان ہے باہر سے مال فروخت کے لیے اس کی دوکان پر آتا ہے دو صورتیں ہوتی ہیں یا تو مالک دوکان مذکورہ مال خود خرید لیتا ہے آگے بیچنے کے لیے یا کوئی دوسرا سوداگر مال خرید لیتا ہے آگے بیچنے کے لیے اب دوکان دار یا آڑھتی اگر خود خریدتا ہے تو بیچنے کے لیے کہاں منتقل کرے یا پھر اگر کوئی دوسرا سوداگر خریدتا ہے دوکان ہذا سے تو کیا بیچنے سے پہلے اپنے گھر لے کر جائے ؟ یا دوکان ہذا کے ساتھ والی دوکان پر لیجا کر فروخت کر سکتا ہے ؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا دوکان ہذا پر ہی دوچار فٹ آگے پیچھے کر لینے سے مذکورہ فرمان نبویﷺ پر عمل ہو جائے گا ؟ ایک مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ خرید کردہ مال اپنے مقام سے ہٹا دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مال پر اچھی طرح قبضہ ثابت ہو جائے ۔ اگر مقصود یہی ہے تو یہ مقصد تو اسی جگہ پڑے رہنے سے بھی حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ بائع تو مال فروخت کرنے کے بعد پیسے وصول کر کے مال کو مشتری کے حوالے کر کے گھر چلا گیا ۔ اب بھی اس مال پر مشتری کا قبضہ ہونے کی کوئی شرط باقی رہ جاتی ہے ؟ جب کہ مشتری یا بائع یا دونوں عرف عام کے مطابق آڑھت کی ادائیگی سے بھی فارغ ہو جائیں ۔ مہربانی فرما کر دونوں مسائل بادلائل بین فرمائیں ۔ حوالہ کے طور پر عربی عبارت درج کرنے کی ضرورت نہیں محض حوالہ اور حدیث پاک یا آیت قرآنی کا مفہوم جس سے استدلال کیا گیا نقل کر دینا کافی ہو گا ۔ نیز پتہ چلا کہ کچھ ان صحابہ کے عمل سے احتکار منقول ہے جو حدیث احتکار کے راوی بھی ہیں ۔ اس واقعہ کی بھی صراحت فرما دیویں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) ذخیرہ اندوزی کی کئی صورتیں ہیں ان میں سے ایک صورت ہے کہ کسی چیز کو ذخیرہ کرنا اس غرض سے کہ یہ مہنگی ہو جائے یا مہنگی کر دی جائے عربی زبان میں احتکار ذخیرہ اندوزی کی اس ایک مذکورہ بالا صورت کو کہتے ہیں چنانچہ لغت کی مستند کتاب قاموس میں ہے «وَبِالتَّحْرِيْکِ مَا احْتُکِرَ اَیْ احْتُبِسَ اِنْتِظَارًا لِغَلاَئِهِ» ’’احتکار یہ ہے کہ کسی چیز کو روک کر رکھنا تاکہ مہنگی ہو جائے‘‘ اور حدیث میں احتکار کی ممانعت آئی ہے احتکار کی صورتوں میں سے کسی صورت کی تخصیص وارد نہیں ہوئی البتہ بعض احادیث میں طعام کا لفظ موجود ہے جبکہ دوسری کئی احادیث میں طعام کی قید نہیں آئی بلکہ مطلق احتکار کی ممانعت وارد ہوئی ہے امام شوکانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ طعام والی حدیث تنصیص علیٰ فرد واحد پر محمول ہے نہ کہ تخصیص وتقیید بفرد واحد پر۔
(2) جو حدیث آپ نے نقل فرمائی صحیح ہے منقولہ اشیاء خرید کر انہیں ان کی پہلی جگہ (جس جگہ وہ بائع کے پاس پڑی تھیں) پر بیچنا درست نہیں ۔ انہیں اگر بیچنا ہے تو بیچنے سے قبل ان کا منتقل کرنا ضروری ہے چاہے وہ انہیں اپنے گھر لے جائے یا اپنی دکان پر یا کسی کی دکان پر ۔ مقصد یہ ہے کہ مبیع کو خرید کی جگہ پر نہ بیچے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب