سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(299) عمارت بنا کر بینک کو کرایہ پر دینا

  • 19948
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2166

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میرے ایک دوست نے عمارت تعمیر کر کے بینک کو کرایہ پر دے دی ہے، میں نے اسے سمجھایا کہ ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں، اس کے متعلق کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں کہ عمارت بنا کر بینک کو کرایہ پر دینا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں پر ایسا وقت آنے والا ہے کہ وہ اس میں سود کھائیں گے، عرض کیا گیا سب کے سب اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں گے فرمایا کہ جو نہیں کھائے گا اسے بھی سود کی گردوغبار پہنچ جائے گی۔‘‘ [1]

 اس حدیث کے پیش نظر دورحاضر میں کوئی بھی اس وبائی مرض سے محفوظ نہیں ہے، کسی نہ کسی حوالہ سے سود سے اجتناب کرنے والے کو بھی اس کی گردوغبار سے ضرور واسطہ پڑ جاتا ہے، ہمارے نزدیک صورت مسؤلہ میں بھی اس قسم کا معاملہ ہے کیونکہ کرایہ وغیرہ کی رقم اس سودی کاروبار کی پیداوار ہو گی، جس پر بینک کے معاملات کی بنیاد کھڑی ہے، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کوئی بینک بھی سودی معاملات سے محفوظ نہیں ہے خواہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ ہونے کا لیبل ہی کیوں نہ لگا لے، کیونکہ پاکستان میں جتنے بینک ہیں یہ حکومتی بینک (اسٹیٹ بینک) کے ماتحت ہوتے ہیں اور حکومتی بینک سے انہیں کاروبار اور لین دین کرنا پڑتا ہے، اسے بھاری رقوم بھی پرکشش شرح سود پر دی جاتی ہیں، پھر حکومتی بینک کا تعلق ورلڈ (عالمی) بینک سے ہوتا ہے، حکومتی بینک، ورلڈ بینک کے ماتحت ہوتے ہیں اور اسے بھاری سرمایہ بھاری شرح سود پر فراہم کرتے ہیں، اس طرح ورلڈ بینک سے جو سود ملتا ہے وہ حصہ رسدی کے طور پر پاکستان کے تمام بینکوں کو پہنچ جاتا ہے، بینک کے معاملات کی یہ مختصر وضاحت ہے، ایسے بینکوں کو سودی کاروبار کے لیے جگہ فراہم کرنا کہ وہ خود عمارت تعمیر کر لیں یا انہیں عمارت بنا کر کرایہ پر دینا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا ان کے حرام کاروبار میں ان کی معاونت کرنا ہے جبکہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ ﴾[2]

’’تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموںمیں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔‘‘

 اس آیت کریمہ کی روشنی میں مسلم یا غیر مسلم اگر وہ نیکی اور تقویٰ کا کام کرتا ہے تو اس کا ساتھ دینا چاہیے اور اگر گناہ کا کام خواہ کوئی مسلمان کر رہا ہو اس سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک عمارت تعمیرکر کے سودی کاروبار کرنے والے ادارے کو کرایہ پر دینا ایسا ہی جیسا کہ وہ عمارت کسی بدکاری کا اڈہ چلانے یا شراب کشید کرنے کے لیے کرایہ پر دی ہے، ایسا کرنا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1] مسند امام احمد، ص؛ ۴۹۴، ج۲

[2] ۵/المائدہ: ۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:265

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ