السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں جب صبح بیدار ہوا تو اذان ہو رہی تھی، میں نے جلدی جلدی کھانا کھا کر روزہ رکھ لیا اور بیوی نے تو اذان کے بعد پانی پی کر روزہ رکھا، ایسی حالت میں ہمیں کیا حکم ہے کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم نے روزے دار کے لیے کھانے پینے کی حد بایں الفاظ بیان کی ہے:
﴿وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ﴾ [1]
’’تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے پھر رات تک اپنے روزے کو پورا کرو۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق کے بعد کھانا پینا روزے کو باطل کر دیتا ہے، ہاں اگر کھانے کے دوران اذان شروع ہو جائے تو اپنا کھانا وغیرہ پورا کر لینے میں چنداں حرج نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی حاجت کو پورا کر لینا چاہیے۔ [2]
یہ بھی اس صورت میں ہے جب مؤذن نے صحیح وقت پر اذان دی ہو، اگر مؤذن نے دیر سے اذان دی ہے تو اس رخصت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے، لیکن اذان مکمل ہونے کے بعد جلدی جلدی کھانا پینا یا صرف پانی پی کر روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، ایسے انسان کو چاہیے کہ وہ اگر ہمت رکھتا ہے تو کھائے پئے بغیر روزہ رکھ لے کیونکہ روزہ کے لیے سحری مستحب عمل ہے اگر کبھی سحری کے بغیر روزہ رکھ لیا جائے تو اس سے روزہ میں کوئی نقص نہیں پڑتا جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’سحری بابرکت کھانا ہے لیکن واجب نہیں۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اگرچہ سحری کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر مروی ہے لیکن یہ امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کرنے والوں کو تنبیہ تو کی ہے لیکن ان کے روزے کو باطل قرار نہیں دیا، بہرحال اذان کے بعد کچھ کھا پی کر روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے بلکہ اذان ہوتے ہوئے بھی کھانے پینے کی ابتداء کرنا محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۲/البقرة:۱۸۷۔
[2] مسند احمد،ص: ۵۱۰،ج۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب