السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا روزہ رکھنے کے بعد کسی کی غیبت یا دیگر حرام گفتگو سے روزہ باطل ہو جاتا ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم نے روزے کا مقصد حصول تقویٰ قرار دیا ہے اور تقویٰ کا معنی اللہ کی طرف سے حرام کردہ امور کو ترک کرنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص روزہ کی حالت میں جھوٹی بات اور اس پر عمل کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا ترک کرے۔‘‘ [1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روزہ دار کو حرام اقوال و اعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، ان کے متعلق بہت سخت وعید ہے، اسے چاہیے کہ روزے کی حالت میں دوسرے لوگوں کی غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، چغلی نہ کرے اور دیگر حرام امور سے اجتناب کرے۔ اگر روزہ دار ایک ماہ اس امر کی مشق کرے کہ ان احکام کو بجا لائے جن کے بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے اور ان امور کو ترک کر دے جن سے منع کیا گیا ہے تو امید ہے کہ سارا سال امن و سلامتی سے گزار لے گا لیکن افسوس ہے کہ اکثر روزے دار روزوں اور اس کے علاوہ دوسرے دنوں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ وہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹ، دھوکے، فراڈ اور حرام باتوں اور حرام کاموں کا شغل جاری رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کاموں سے روزے کا وقار اور احترام مجروح ہو جاتا ہے لیکن ان کے ارتکاب سے روزہ باطل نہیں ہوتا البتہ اجر و ثواب میں بہت حد تک کمی آجاتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو اس کا ثواب بالکل ضائع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنی محنت کوثمر آور بنانے کی کوشش کرے اور ایسے کاموں سے اجتناب کرے جن سے اس کے اجر میں کمی یا ثواب کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۰۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب