سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(291) روزہ کی نیت کرنا

  • 19940
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 801

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزہ کی نیت کے متعلق شرعی حکم کیا ہے، کیا ہر روزہ کی الگ نیت کرنا چاہیے یا پورے ماہ کے روزوں کی ایک ہی مرتبہ نیت کر لی جائے، نیز روزے کے لیے زبان سے نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ہمارے ہاں مطبوعہ کتب میں الفاظ ملتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ ایک عمل ہے اور عمل کے لیے نیت کرنا فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ [1]

 واضح رہے کہ فرض روزے کی نیت فجر سے پہلے ہونی چاہیے، اس کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ہو گا، جیسا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے فجر یعنی صبح صادق سے پہلے روزہ کی نیت نہ کی، اس کا روزہ نہیں۔‘‘[2]

 بہرحال فرض روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کرنی چاہیے جب کہ نفلی روزے کی نیت زوال سے پہلے بھی کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’کیا تمہارے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز ہے؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس تو کچھ نہیں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تب میں روزہ سے ہوں۔‘‘ [3]

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفلی روزہ کی نیت موقع پر بھی کی جا سکتی ہے، واضح رہے کہ ہر روزے کے لیے الگ نیت کرنا ضروری ہے، پورے مہینہ کے لیے ایک مرتبہ نیت کافی نہیں ہو گی، کیونکہ روزہ ایک مستقل عبادت ہے اور ہر مرتبہ آغاز عبادت سے اس کی دوبارہ نیت کرنا اس لیے ضروری ہے۔ کہ کوئی بھی عبادت نیت کے بغیر معتبر نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیت دل کے عزم اور ارادے کا نام ہے، اس کے لیے زبان سے ادائیگی ضروری نہیں ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر روزہ کی نیت کے لیے یہ الفاظ بتائے جاتے ہیں۔ وبصوم غدٍ نویت من شہرِ رمضان یہ الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں، لہٰذا اس قسم کے الفاظ کی ادائیگی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نیت روزہ کے مذکورہ الفاظ عربی لغت سے نابلد انسان کے خود ساختہ ہیں کیونکہ نیت آج کے روزہ کی ہے جب کہ مذکورہ الفاظ کل کے روزہ کے لیے ہیں۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، بدء الوحی: ۱۔  

[2] ابوداود، الصوم: ۲۴۵۴۔

[3] صحیح مسلم، الصیام: ۱۱۵۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:259

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ