سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(289) ترک روزہ کی وجوہات

  • 19938
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 804

سوال

(289) ترک روزہ کی وجوہات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ کون کون سے عذر ہیں جن کی بنا پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے اور کیا اگر دن کے کسی حصہ میں عذر ختم ہو جائے تو باقی دن میں کھانے پینے سے پرہیز کرنا ضروری ہے؟ اس سلسلہ میں وضاحت کریں۔ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم نے روزہ ترک کرنے کے دو عذر بیان کیے ہیں، ایک بیماری اور دوسرا سفر، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ١ ﴾[1]’پھر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے۔‘‘ روزہ چھوڑ دینے کی رعایت حیض یا نفاس والی عورت کے لیے بھی ہے اور دودھ پلانے والی عورت بھی اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے کی صورت میں اسے اپنے یا اپنے بچے کے متعلق کوئی اندیشہ لاحق ہو، حاملہ عورت کے لیے بھی یہی حکم ہے، اس لیے یہ عذر بھی روزہ ترک کر دینے کا باعث ہے کہ کوئی انسان کسی معصوم کو تباہی سے بچانے کے لیے روزہ چھوڑنے پر مجبور ہو مثلاً کوئی آدمی ایسی عمارت میں پھنسا ہو اہے جسے آگ لگ چکی ہے یا وہ دیکھے کہ کوئی شخص دریا میں ڈوب رہا ہے اور وہ اسے بچانے کے لیے روزہ ترک کر دے تو اس کے لیے جائز ہے کہ دوسرے کی جان بچانے کے لیے روزہ چھوڑ دے نیز جہاد فی سبیل اللہ میں طاقت حاصل کرنے کے لیے روزہ ترک کر دینا بھی جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:

’’تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو اور ایسی حالت میں روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے موجب طاقت و قوت ہے۔‘‘ [2]

 ایسی حالت میں اگر کوئی روزہ ترک کر دیتا ہے تو عذر ختم ہونے پر دن کے بقیہ حصہ میں کھانے پینے سے پرہیز کرنا ضروری نہیں کیونکہ روزہ چھوڑنے کے جائز سبب کی وجہ سے اس دن کی حرمت زائل ہو چکی ہے، اس بنا پر ہمارا رجحان ہے کہ اگر حائضہ عورت دن کے وقت پاک ہو جائے تو اس کے لیے بھی باقی دن کھانا پینا جائز ہے، اس سے رکنا جائز نہیں، اگر اس کے برعکس کسی کو دن کے وقت ماہ رمضان کے آغاز کا علم ہو جائے تو اسے باقی دن میں کھانا پینا ترک کر دینا ہو گا کیونکہ جب دن میں دلیل کے ساتھ رمضان کا آغاز ثابت ہو گیا تو باقی دن میں کھانے پینے سے پرہیز کرنا ضروری ہے، قبل ازیں وہ جہالت کی وجہ سے معذور تھا اور اب اس کا عذر ختم ہو چکا ہے، لیکن قبل ازیں جن لوگوں کا بیان تھا ان کے لیے علم کے باوجود روزہ چھوڑنا جائز ہے، لہٰذا دونوں صورتوں میں فرق واضح ہے، بہرحال جہالت کے عذر کے علاوہ کوئی دوسرا عذر روزہ چھوڑنے کا باعث ہے تو عذر ختم ہونے کے بعد اسے باقی دن کے حصہ میں کھانا پینا جائز ہے۔ البتہ جہالت کے عذر کی بنا پر دن کے باقی حصہ میں کھانے پینے کی اجازت نہیں ہے اس لیے جہالت کا عذر اب ختم ہو چکا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)


[1]  ۲/البقرة: ۱۸۴۔

[2] صحیح مسلم، الصیام: ۱۱۲۰۔       

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:257

محدث فتویٰ

تبصرے