السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وحدت امت کے پیش نظر عالم اسلام میں عید ایک ہی دن ہونی چاہیے، اس کے لیے وہ تمام عالم اسلام کے مطالع کو مکہ مکرمہ کے مطلع کے ساتھ مربوط کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ مرکز اسلام ہے، اس کے متعلق وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ماہرین فلکیات کے مطابق چاند کے مطالع مختلف ہیں، اس اختلاف مطالع کی وجہ سے وحدت امت کے بہانے عالم اسلام میں ایک ہی دن عید کرنا عقل و نقل کے خلاف ہے بلکہ چاند دیکھنے کے متعلق ہر علاقے کا اپنا لحاظ کیا جائے گا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا ترک کرو۔‘‘ [1]
اس حدیث کے پیش نظر اگر اہل مکہ نے چاند دیکھ لیا تو مشرق میں رہنے والوں کو روزہ رکھنے یا عید الفطر کرنے کا کیونکر پابند کیا جا سکتا ہے؟ جب کہ انہوں نے ابھی چاند نہیں دیکھا کیونکہ اہل مشرق کے افق پر ابھی چاند طلوع نہیں ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو چاند کو دیکھ لینے کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہر علاقہ کی اپنی رؤیت کا اعتبار کیا جائے کیونکہ زمین کی مشرقی جہت میں فجر مغربی جہت سے پہلے طلوع ہوتی ہے، اس بنا پر جب مشرقی جہت میں فجر طلوع ہو جائے تو کیا مغربی جہت میں رہنے والوں کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ کھانے پینے سے رُک جائیں جب کہ وہاں ابھی رات ہو گی اور فجر طلوع نہیں ہو گی۔ اس طرح جب مشرقی جہت میں سورج غروب ہو جائے تو کیا اہل مغرب کے لیے روزہ افطار کر دینا ضروری ہے جب کہ وہاں سورج غروب نہیں ہوا، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، اس طرح چاند بھی سورج کی طرح ہے۔ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق روزہ رکھنے اور عید منانے کے لیے ہر علاقہ کی رؤیت کو مدار قرار دیا جائے۔ عقل و نقل کا یہی تقاضا ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۰۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب