السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں نماز تراویح باجماعت ادا کرنے کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین یا چار دن اس نماز تراویح کو باجماعت ادا کیا ہے، وہ بھی لوگ اتفاق سے جمع ہو گئے تو آپ نے انہیں باجماعت نماز تراویح پڑھائی، ایسی حالت میں اس نماز کے متعلق اس قدر اہتمام چہ معنی دارد؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محدثین عظام کا اس امر میں اختلاف ہے کہ نماز تراویح مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے یا گھر میں اکیلے پڑھنا بہتر ہے، ہمارے رجحان کے مطابق نماز تراویح مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی افضل ثابت ہے۔ اگرچہ بعد ازاں آپ نے ان کے فرض ہونے کے اندیشے سے انہیں باجماعت ادا کرنا ترک کر دیا تھا لیکن جب آپ کی وفات کے بعد یہ اندیشہ نہ رہا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دیا، اس کے بعد یہ عمل آج تک امت میں رائج ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے، آپ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن آدھی رات مسجد میں تشریف لے گئے اور وہاں نماز ادا کی، لوگوں نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی، اگلے دن لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا تو لوگ پہلے سے زیادہ جمع ہو گئے اور انہوں نے رات کے وقت آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ اگلی صبح اس امر کا لوگوں میں چرچا ہوا تو تیسری رات اہل مسجد کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی، ان تمام حاضرین نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ جب چوتھی رات ہوئی تو اس قدر لوگ جمع ہو گئے کہ مسجد کی وسعت تنگ پڑ گئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات تشریف نہ لائے۔ جب صبح کی نماز کا وقت ہوا تو آپ نے نماز فجر پڑھائی، نماز سے فراغت کے بعد لوگوں سے متوجہ ہو کر فرمایا: ’’آپ حضرات کا شوق و ذوق مجھ سے مخفی نہیں تھا لیکن مجھے اندیشہ تھا کہ مبادا یہ نماز فرض ہو جائے پھر تم لوگ اس کی ادائیگی سے عاجز آجاؤ۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ رمضان المبارک میں پیش آیا۔ [2] بخاری کی روایت میں ہے کہ ’’پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی لیکن یہ معاملہ اسی طرح رہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران بھی معاملہ اسی طرح رہا، حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور حکومت میں اسی طرح چلتا رہا۔[3] اس کے بعد کیا ہوا اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، چنانچہ عبدالرحمن بن عبدالقاری فرماتے ہیں: میں ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں گیا، وہاں دیکھا کہ سب لوگ منتشر و متفرق تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا اور کوئی کسی کے پیچھے کھڑا تھا، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ مناسب ہو گا۔
چنانچہ انہوں نے اسی عزم وارادہ کے ساتھ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام مقرر کر دیا پھر ایک رات میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ تمام لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز تراویح پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ نیا طریقہ بہت بہتر اور مناسب ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصے سے بہتر ہے جس میں یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصے کی تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع میں ہی پڑھ لیتے تھے۔ [4]
مذکورہ روایات سے معلوم ہو اکہ قیام رمضان یعنی صلوٰۃ تراویح باجماعت مشروع ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اس اندیشے کی وجہ سے چوتھی رات جماعت سے گریز کیا تھا کہ یہ نماز مسلمانوں پر فرض نہ کر دی جائے، شاید بعد میں یہ لوگ بار خاطر خیال کر کے ترک کر دیں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خائف تھے، اس سے امن ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے نماز تراویح باجماعت ادا کرنے کا اہتمام فرمایا اور اسے باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا، اس بنا پر سوال میں جو مفروضہ قائم کیا گیا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الجمعۃ: ۹۲۴۔
[2] صحیح بخاری، التہجد: ۱۱۲۹۔
[3] صحیح بخاری، صلوٰۃ التراویح: ۲۰۹۔
[4] صحیح بخاری، التراویح: ۲۰۱۰۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب