السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے خطیب نے مسئلہ بیان کیا تھا کہ قے آنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا حوالہ دیا تھا، اس سلسلہ میں صحیح موقف کیا ہے، کیا واقعی قے آنے سے ر وزہ نہیں ٹوٹتا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1) قے آنے کی دو صورتیں ہیں۔ از خود قے آجائے۔ 2) دانستہ قے کی جائے۔
پہلی حالت میں روزہ نہیں ٹوٹتا جبکہ دوسری حالت میں روزہ فاسد ہو جاتا ہے اور اس کی قضا دینا پڑتی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جسے روزے کی حالت میں خود بخود قے آجائے اس پر قضا نہیں ہے اور اگر کوئی جان بوجھ کر قے کرے تو وہ قضا دے گا۔‘‘ [1]
اس مسئلہ کے متعلق علماء امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سوال میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مطلق طور پر قے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا لیکن یہ قول صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اس قول کے درج ذیل الفاظ ہیں: ’’تین چیزیں روزہ فاسد نہیں کرتیں: قے کرنا، سینگی لگوانا اور احتلام ہو جانا۔‘‘ [2]
لیکن اس کی سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم نامی راوی ضعیف ہے۔ [3]
اس بنا پر یہ قول قابل حجت نہیں ہے، اس وضاحت کے بعد ہمارا رجحان یہ ہے کہ خطیب صاحب کا مؤقف مبنی برحقیقت نہیں بلکہ صحیح روایات کے پیش نظر راجح مؤقف یہ ہے کہ از خود قے آنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا جبکہ دانستہ قے کرنے سے روزہ خراب ہو جاتا ہے، اس کے بعد روزے دار کو اس کی قضا دینا ہو گی۔ (واللہ اعلم)
[1] مسند امام احمد،ص: ۴۹۸،ج۲۔
[2] جامع ترمذی، الصیام: ۷۱۹۔
[3] میزان الاعتدال،ص: ۵۶۴،ج،۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب