سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(277) عاشورا محرم کے روزوں کی تعداد

  • 19926
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1153

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس سال ہمارے ہاں عاشورا محرم کے روزے کے متعلق اختلاف ہوا کہ یہ صرف نویں محرم کا رکھنا چاہیے، جبکہ ہم اس سے پہلے نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھتے تھے براہ کرم اس کے متعلق وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سال عاشورا محرم کے موقع پر ہمیں متعدد مقامات سے فون آئے اور کچھ حضرات نے زبانی استفسار کیا کہ عاشورا محرم کے روزہ کی کیا حیثیت ہے؟ اور اسے کس دن رکھا جائے؟ حضرت عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ کے حوالہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ صرف نویں محرم کو رکھنا چاہیے، دسویں محرم کا روزہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ، اس لیے ضروری ہے کہ ذرا تفصیل سے اس کے متعلق وضاحت کر دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ رمضان کے بعد کس مہینے کے روزے افضل ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے مہینے محرم کے روزے رمضان کے بعد فضیلت والے ہیں۔‘‘ [1]پہلی امتیں بھی اس دن کا احترام کرتی تھیں اور روزہ رکھتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے یہود مدینہ کو اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، آپ نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے جس میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئی تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کے حضور شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ [2] اس کا مطلب یہ ہے کہ محرم کی دس تاریخ کو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ کی چوٹی پر ٹھہری تھی اور انہیں بہت بڑے طوفانی سیلاب سے نجات ملی تھی، اس بنا پر حضرت نوح علیہ السلام نے عاشورا کے دن اللہ کے حضو روزے کا نذرانہ پیش کیا۔ یہودی بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ یہ دن بڑا بابرکت ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات دی، اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکریہ کے طور پر اس دن ایک روزہ رکھا۔ [3] یہود مدینہ اس دن کو قومی جشن کے طور پر مناتے اور فرحت و انبساط کا اظہار کرتے تھے، حدیث میں ہے کہ اہل خیبر اس دن عید مناتے اس دن عورتوں کو زیور پہناتے اور سامان زینت سے آراستہ کرتے تھے۔ [4] اس دن اظہار مسرت کے لیے عیسائی بھی یہود کے ساتھ شریک ہوتے اور اس دن کی عظمت کو بجا لاتے، حدیث میں اس مشترکہ عظمت کا اظہار بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ اس دن کو یہودی اور عیسائی بڑا عظیم خیال کرتے تھے۔[5] ایام جاہلیت میں قریش بھی اس دن کو عظیم سمجھتے تھے اور اس کی عظمت کے پیش نظر کعبہ شریف کو غلاف پہناتے چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہو گیا جو ان کے دلوں میں کانٹے کی حیثیت اختیار کر گیا، انہیں بتایا گیا کہ عاشورا کی تعظیم اور اس کا روزہ رکھنے سے اس گناہ کی تلافی ہو سکتی ہے۔ [6] صحیح احادیث کے مطابق قریش بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش زمانہ جاہلیت میں اس دن کا روزہ رکھتے تھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ [7]عین ممکن ہے کہ یہود مدینہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قریش نے بھی اس دن کی تعظیم کو اپنے ہاں برقرار رکھا ہو بہرحال تصریحات بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشورہ کا دن بڑی تاریخی حیثیت کا حامل ہے، زمانہ قدیم سے اس کی تعظیم کے پیش نظر روزہ رکھنے کا رواج تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں اس رواج کو برقرار رکھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ قریش مکہ جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھتے تھے اور مکہ میں رہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن ایک روزہ رکھا۔ [8] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشورا کا خود بھی روزہ رکھتے اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے تاآنکہ رمضان کے روزے فرض کر دئیے گئے۔ [9]

 چنانچہ حدیث میں صراحت ہے کہ تمام مسلمان اس دن کا روزہ رکھتے تھے [10] یہودی و نصاریٰ بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تمہاری نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قرب رکھتے ہیں اور ان کی اتباع کے زیادہ حق دار ہیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس روزہ کی مزید تاکید فرمائی۔ [11] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اعلان کر دیا کہ اس دن کا روزہ رکھا جائے، حتیٰ کہ اگر کسی نے صبح سحری نہیں کھائی اور روزہ نہیں رکھا وہ بھی بقیہ دن روزے کی حالت میں پورا کرے۔[12] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کے دن مدینہ طیبہ کی مضافاتی بستیوں میں بھی اعلان کرایا کہ جس نے اس دن روزہ رکھا ہے وہ اپنے روزے کو رات تک پورا کرے اور جس نے نہیں رکھا وہ شام تک کچھ نہ کھائے پیئے بلکہ بقیہ دن روزے کی حالت میں گزارے۔[13] اس تاکید در تاکید کا یہ اثر ہوا کہ صحابیات مبشرات رضی اللہ عنھن اپنے چھوٹے بچوں کو بھی کھانے پینے کے لیے کچھ نہ دیتیں بلکہ جب وہ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر روتے تو انہیں روئی اور اون کے بنے ہوئے کھلونے دے دیتیں تاکہ وہ ان کھلونوں سے کھیلتے رہیں اور شام تک اپنے روزے کو پورا کریں جیسا کہ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے بعد ہم خود بھی روزہ رکھتیں اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں، ہم اپنے بچوں کو کھلونوں سمیت مسجد میں لے جاتیں وہ شام تک ان سے کھیلتے رہتے۔[14] ہجرت کے دوسرے سال رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورا کے روزہ میں نرمی کر دی گئی البتہ اس کے استجاب کو باقی رکھا اور انسان کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’عاشورا اللہ کے ایام میں سے ایک دن ہے جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے۔‘‘ [15]

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح مروی ہے[16]حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عاشورا کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، شوق دلواتے اور اس کی پابندی کراتے تھے، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق نرمی کر دی، ہمیں نہ تو اس کے متعلق حکم دیتے او رنہ ہی منع کرتے نیز اس سلسلہ میں ہماری نگہداشت بھی نہیں کرتے تھے۔[17]حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس سے ملتی جلی روایات ملتی ہیں۔ [18]

 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ عاشورا کا روزہ پہلے فرض تھا، رمضان کے بعد اس کی فرضیت ختم ہو چکی ہے اگر روزہ رکھنا ہے تو بہتر بصورت دیگر اسے ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ [19]

 فتح مکہ سے پہلے پہلے آپ اہل کتاب کی موافقت کو پسند کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے بعد مذہبی شعار میں ان کی ممانعت کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشتر احکام میں ان کی ممانعت کا حکم دیا چنانچہ عاشورا کا روزہ بھی ان کا مذہبی شعار تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر میں بھی اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا اور امت کو بایں الفاظ تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’عاشورا کے دن کا روزہ ضروررکھو لیکن اس میں یہود کی مخالفت کرو جس کی یہ صورت ہے کہ تم عاشورا کے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو۔[20]

 اس روایت کی سند میں کچھ ضعف ہے لیکن دیگر متابعات و شواہد کے پیش نظر یہ ضعف نقصان دہ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس بات کا اظہار فرمایا چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کو یہود و نصاریٰ بھی عظیم خیال کرتے ہیں اور اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آیندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں محرم کا روزہ رکھیں گے۔‘‘ [21]ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’اگر میں آیندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ [22] لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیندہ ماہ محرم آنے سے پہلے ماہ ربیع الاول میں رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور نویں محرم کا روزہ رکھنے کی نوبت نہ آئی۔ [23]

 بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کا اس طرح روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی اور اس کی فضیلت کو بایں الفاظ بیان کیا کہ عاشورا کا روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔[24]

 افسوس ہے کہ آج کل بلاوجہ عاشورا کے رو زہ کو ایک اختلاف اور نزاعی مسئلہ بنا دیا گیا ہے اوردسویں محرم کے روزے کا سرے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے پیش نظر اب صرف نویں محرم کا روزہ رکھنا چاہیے، بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ اب عاشورا نویں تاریخ کو ہے، دسویں تاریخ کی قطعی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ان حضرات کی دلیل حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت ہے: حضرت حکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہواجبکہ آپ چاہ زمزم کی پاس اپنی چادر لپیٹ کر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ مجھے عاشورہ کے روزہ کی متعلق بتائیے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جب محرم کا چاند نظر آئے تو اس کے دن شمار کرتے رہو، جب نویں محرم ہو تو اس دن روزہ رکھو، سائل نے دریافت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ فرمایا: ہاں۔[25] اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری خواہش سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دس محرم کی بجائے نو محرم کا روزہ رکھا جائے اور یہی عاشورا کا دن ہے جس کی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ تائید کے لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی ایک عبارت کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ عاشورا کا دن نو محرم کا دن ہے۔ [26]

 یہ کل کائنات ہے جس کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ عاشورا کا روزہ نو محرم کو رکھنا چاہیے، دسویں محرم کا روزہ منسوخ ہے۔

 قارئین کرام! ہماری عافیت اسی میں ہے کہ ہم قرآن و سنت کی نصوص کو اپنے اسلاف کی فہم کے مطابق انہیں عمل میں لائیں، اس کے مقابلہ میں کوئی انفرادی رائے قائم نہ کریں، چنانچہ نویں تاریخ کو روزہ رکھنے کے متعلق بیان کرنے والے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں، ان کا ذاتی فتویٰ یہ ہے کہ جو اس روایت کو بیان کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا ہے کہ نو اور دس محرم کا روزہ رکھو، اس لیے کہ یہود کی مخالفت کرو۔[27]علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سائل کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ نویں محرم کا روزہ رکھو، جواب میں یوم عاشورہ کی تعیین نہیں کی کہ وہ دسویں تاریخ ہے کیونکہ اس کے متعلق سوال کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ وابستہ تھا۔4[28]علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق بہت وضاحت سے لکھا ہے، فرماتے ہیں کہ اکثر احادیث میں نو اور دس کے روزے کا ذکر ہے، رہا صرف نو کا روزہ رکھنا تو روایات کو نہ سمجھنے کے باعث ایسا کہا جاتا ہے، نیز احادیث کے الفاظ اور ان کی تمام اسناد کی جانچ پڑتال نہ کرنے کی وجہ سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے حالانکہ یہ مؤقف لغت اور شریعت دونوں کے خلاف ہے۔[29]

 امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں آیندہ سال نویں محرم کا روزہ رکھوں گا، اس کا مقصد یہ تھا کہ میں دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھوں گا تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت باقی نہ رہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ یہود کی مخالفت کرو نو اور دس محرم کا روزہ رکھو، اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کے متعلق فرمایا کہ اس کا روزہ رکھو، اس سے پہلے ایک دن یا اس کے بعد ایک دن کا روزہ بھی ساتھ رکھو، یہود کی مشابہت اختیار کرو، ہمارے مؤقف کی صریح دلیل ہے۔[30]مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے عاشورا محرم کا روزہ رکھنے کے متعلق تین درجات ترتیب دئیے ہیں۔

1) سب سے نچلا درجہ یہ ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے۔ 2) اس سے اوپر دس اور گیارہ کا روزہ رکھنا ہے۔ 3)سب سے اوپر کا درجہ نو اور دس محرم کا روزہ رکھنا ہے کیونکہ اکثر احادیث میں نو اور دس محرم کا روزہ رکھنے کا تذکرہ ہے۔ [31]

 حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے نو محرم کے روزہ کی دو وجوہ لکھی ہیں۔

1) احتیاط کے پیش نظر نویں کا روزہ بھی رکھ لیا جائے کیونکہ چاند دیکھنے میں غلطی لگ سکتی ہے، دس کو نو سمجھا جا سکتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ دس محرم کے ساتھ نو کا روزہ بھی رکھ لیا جائے۔

2) یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے پیش نظر کیونکہ وہ صرف ایک دن کا روزہ رکھتے تھے، پہلے معنی کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خود اپنے عمل سے ہوتی ہے آپ دو دن کا متواتر روزہ رکھتے تھے۔ مبادا عاشورہ کا روزہ رہ جائے اور دوسرے معنی کی تائید امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے ہوتی ہے، اس میں ہے کہ نو اور دس کا روزہ رکھو اور یہود کی مشابہت سے احتراز کرو۔[32]

 ہمارے رجحان کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عقیدہ یہ تھا کہ جو انسان عاشورا کا روزہ رکھنا چاہتا ہے وہ نویں محرم سے ابتداء کرے اور دس محرم کا اس کے ساتھ روزہ رکھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی موقوف اور مرفوع روایات اسی بات پر دلالت کرتی ہیں، اس قدر جلیل القدر ائمہ کی تصریحات کے بعد اس مسئلہ میں کوئی شک نہیں رہتا کہ نو محرم کو عاشورا قرار دینا کسی صورت میں صحیح نہیں ہے نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ذاتی فتویٰ، ان کے عمل اور مرفوع روایات میں کوئی تعارض یا تضاد نہیں ہے ان حضرات پر اعتراض کر کے اپنے لیے ایک الگ راستہ اختیار کرنا غیر سبیل المومنین ہے جس کی قرآن اجازت نہیں دیتا، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق پر چلنے اور اسے بطور منہج اختیار کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)


[1] صحیح مسلم، الصیام: ۲۷۴۶۔

[2] مسند احمد،ص:۳۶۰،ج۲۔

[3] صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۴۔

[4] صحیح مسلم ، الصیام: ۲۶۶۱۔

[5]  صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۶۔

[6]  فتح الباری، ص: ۲۴۶،ج۴۔

[7] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۳۷۔                 

[8] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۳۷۔

[9] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۴۰

[10] صحیح مسلم الصیام: ۲۶۳۷۔

[11] صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۴۔

[12] صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۷۔

[13] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۹۔

[14] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۷۰۔

[15] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۴۲۔

[16] صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۱۔  

[17]  صحیح مسلم ، الصیام: ۲۶۵۲۔

[18]   صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۳۔

[19] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۵۰۔  

[20] مسند امام احمد،ص:۲۴۱،ج۱۔

[21] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۶۔

[22] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۷۔  

[23] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۶۔

[24]  صحیح مسلم، الصیام: ۲۷۴۶۔

[25]  صحیح مسلم، الصیام:۲۶۶۴۔   

[26] فتح الباری،ص:۳۱۱،ج۴۔

[27] بیہقی،ص:۲۸۷، ج۴

[28] نیل الاوطار، ص:۲۳۸،ج۴۔      

[29]  زاد المعاد،ص:۷۲،ج۲-

[30]     شرح معانی الآثار،ص:۳۳۸،ج۱۔

[31] مرعاۃ المفاتیح: ۲۷۲،ج۴-

[32] تلخیص الحبیر،ص:۲۱۳،۲۱۴،ج۲۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:246

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ