سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(266) روزے کی نیت کرنا

  • 19915
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2741

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزے کی نیت سے کیا مراد ہے؟ ہمارے ہاں روزے کی نیت کے لیے یہ الفاظ بتائے جاتے ہیں: ’’وبصوم غد نویت من شھر رمضان‘‘ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزے دو طرح کے ہوتے ہیں: 1) فرض روزہ: جیسے رمضان کا روزہ، نذر کا روزہ، کفارہ کا روزہ وغیرہ۔ فرض روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے والا رات کے وقت اپنے دل میں ارادہ کرے کہ وہ صبح رمضان یا نذر یا کفارہ یا قضاء کا روزہ رکھے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’جس شخص نے طلوع فجر سے پہلے رات کو روزہ رکھنے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘ [1]

 یہ حدیث بھی اس امر کا ثبوت ہے: ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘[2]ان روایات کی روشنی میں فرض روزے کی نیت رات کو کرنا ضروری ہے اگر کوئی دن چڑھے بیدار ہو اور اس نے طلوع فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا پھر اس نے روزے کی نیت کر لی تو اس کا روزہ نہیں ہو گا، کیونکہ رات کے وقت طلوع فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری تھا۔

1)  روزہ کی دوسری قسم نفلی روزہ ہے، اس کی نیت دن چڑھے بھی کی جا سکتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ایک روز میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا: ’’کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا جی نہیں، آپ نے فرمایا: ’’تب میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔‘‘[3] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ پہلے بحالت روزہ نہ تھے کیونکہ آپ نے کھانا طلب کیا، اس سے یہ بھی ثابت ہو اکہ نفلی روزے کی نیت میں دن چڑھے تک تاخیر کرنا جائز ہے، واضح رہے کہ نفلی روزے کی نیت دن میں اس وقت جائز ہے جب نیت سے پہلے روزے کے منافی کام یعنی فجر ثانی کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو، بصورت دیگر روزہ صحیح نہیں ہو گا۔

 واضح رہے کہ نیت محض دل کے ارادے کا نام ہے، اس لیے زبان سے کوئی الفاظ ادا کرنا شرعاً ثابت نہیں ہیں، اس بنا پر ہمارے ہاں مشہور نیت جو سوال میں ذکر کی گئی ہے خود ساختہ اور بے اصل ہے، یہ الفاظ بنانے والے نے عقل سے کام نہیں لیا، کیونکہ اس میں کل کے روزے کی نیت کا ذکر ہے جبکہ روزہ آج رکھا جا رہا ہوتا ہے، بہرحال روزہ کے لیے زبان سے مخصوص الفاظ ادا کرنا شرعاً ثابت نہیں ہیں۔


[1]   بیہقی،ص:۲۰۳،ج:۴۔

[2]  صحیح بخاری، بدء الوحی:۱۔

[3] صحیح مسلم، الصیام: ۱۱۵۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:239

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ