السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض علماء کرام نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھتے وقت بڑی طویل دعاپڑھنا شروع کر دیتے ہیں، اس سے کچھ مقتدی حضرات میں اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے، کتاب و سنت کے اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز وتر اگر باجماعت ادا ہو تو امام کو قنوت وتر پڑھنا چاہیے، اس کے ساتھ مزید دعائیں شامل کی جا سکتی ہیں اور اسے قنوت وتر کے بجائے قنوت نازلہ بھی بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ایسا کرنا منقول ہے، لیکن دعا اس قدر طویل نہیں ہونی چاہیے جو مقتدیوں پر گراں گزرے یا جس سے وہ اکتا جائیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز اس عمل سے منع فرمایا ہے چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جب اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے تو طویل قراء ت کرتے تھے، کچھ لوگوں نے شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے لگے ہو۔[1]اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز ہر اس عمل سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے مقتدی حضرات میں اکتاہت پیدا ہو، اس بنا پر نماز وتر میں لمبی لمبی دعاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے، ہاں اگر مقتدی حضرات اس کی طوالت محسوس نہ کریں اور ان کی اکتاہٹ کا باعث نہ ہو تو ایسا کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الاذان: ۷۰۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب