السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہ کون کون سے عذر ہیں جن کی وجہ سے روزہ ترک کیا جا سکتا ہے، نیز جب عذر ختم ہو جائے تو باقی دن کھانے پینے کی اجازت ہے یا وہ شام تک کوئی چیز کھائے اور نہ ہی کوئی چیز پئے، اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کیا ہدایات ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم نے دو عذر ایسے بیان کیے ہیں جن کی بنا پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ١ ﴾[1]
’’تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر اور بیماری ایسے عذر ہیں جن کی بنا پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے لیکن مسافر اور مریض کو بعد میں روزہ رکھنا ہو گا۔ اس طرح حدیث میں ہے کہ حاملہ عورت اگر روزہ رکھنے کی صورت میں اپنے یا اپنے بچے کے متعلق خطرہ محسوس کرے تو اس کا عذر بھی قابل قبول ہے نیز جو عورت بچے کو دودھ پلاتی ہو اور روزہ رکھنے کی صورت میں اسے اپنے بچے کے متعلق کمزوری کا اندیشہ ہو تو اسے روزہ چھوڑ دینے کی اجازت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور نصف نماز ساقط کر دی ہے، اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون سے روزہ ساقط کر دیا ہے۔‘‘ [2]
جہاد فی سبیل اللہ میں بھی طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے بھی روزہ ترک کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت فرمایا تھا:
’’تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو، اب روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے باعث قوت ہے۔‘‘ [3]
لہٰذا جب کوئی ایسا سبب موجود ہو جس کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز ٹھہرے اور انسان اس عذر کی بنا پر روزہ چھوڑ دے تو دن کے باقی حصہ میں اس کے لیے کھانے پینے سے باز رہنا ضروری نہیں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر کوئی مریض دن کے وقت صحت یاب ہو جائے یا کوئی مسافر اپنی گھر پہنچ جائے اور اس نے روزہ چھوڑا ہوا ہو تو شام تک اس کے لیے کھانے پینے سے باز رہنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے ایک جائز سبب کی وجہ سے روزہ چھوڑا تھا، ان کے لیے اس دن کی حرمت باقی نہیں ہے، وہ شام تک کھا پی سکتا ہے، اسے پابند کرنا کہ وہ شام تک نہ کچھ کھائے اور نہ پئے ناروا پابندی ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۲/البقرۃ:۱۸۵۔
[2] مسند امام احمد،ص:۲۴۷،ج۳۔
[3] صحیح مسلم، الصیام: ۱۱۲۰۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب