سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(256) مسنون تلبیہ

  • 19905
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 882

سوال

(256) مسنون تلبیہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون سا تلبیہ ثابت ہے؟ نیز حج یا عمرہ میں کس وقت تلبیہ ختم کرنا چاہیے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیہ کے لیے حسب ذیل الفاظ ثابت ہیں: لبیك اللھم لبیك، لبیك لا شریك لك لبیك، ان الحمد والنعمۃ لك والملك لا شریك لك [1]

 ’’میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بلاشبہ تمام تعریفیں اور نعمتیں تیری ہی ہیں اور سارا ملک بھی تیرا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ ایک روایت کے مطابق اس تلبیہ میں یہ الفاظ بھی ہیں: لبیك اِلٰہ الحق[2]’’اے معبود حقیقی! میں حاضر ہوں۔‘‘

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مزید الفاظ بھی منقول ہیں، لیکن بہتر ہے کہ حج یا عمرہ کرنے والا مذکورہ الفاظ پر ہی اکتفا کرے اور ان میں کسی اور لفظ کا اضافہ نہ کرے،عمرہ کرنے والا جب طواف شروع کرے تو تلبیہ کو بند کر دے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تلبیہ سے رک جاتے تھے جب حجر اسود کا استلام کرتے۔ [3]

 امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے ’’عمرہ میں کس وقت تلبیہ ختم کیا جائے۔‘‘ اور حج کرنے والا اس وقت تلبیہ بند کر دے جب دسویں ذوالحجہ کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارے کیونکہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اور حضرت فضل بن عباسرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہے۔ [4]

 واضح رہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ عرفہ سے مزدلفہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھے پھر مزدلفہ سے منیٰ تک حضرت فضل رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کر لیا تھا، ان دونوں حضرات نے اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ عمرہ کرنے والے کو طواف شروع کرنے اور حج کرنے والے کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الحج: ۱۵۴۹۔     

[2]  نسائی، المناسک: ۲۷۵۳۔

[3] ابوداود، المناسک: ۱۸۱۷۔            

[4]  صحیح بخاری، الحج: ۱۵۴۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:231

محدث فتویٰ

تبصرے