السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایک عالم دین نے فرمایا کہ اگر کوئی دس اور گیارہ ذوالحجہ کو کنکریاں مار کر واپس آجاتا ہے تو قرآن کریم نے اس کی اجازت دی ہے انہوں نے اس سلسلہ میں درج ذیل آیت کا حوالہ دیا ہے:
﴿فَمَن تَعَجَّلَ فى يَومَينِ فَلا إِثمَ عَلَيهِ...﴿٢٠٣﴾... سورةالبقرة
’’پھر جس نے دو دنوں میں جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘
کیا حجاج کرام کو ایسا کرنا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محترم عالم دین کا یہ مفہوم بیان کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ قبل ازیں آیت کا آغاز بایں الفاظ ہے:
﴿ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْۤ اَيَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ١ ﴾[1]
’’گنتی کے دنوں میں اللہ کو یاد کرو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں گنتی کے دنوں سے مراد ایام تشریق ہیں، جن میں پہلا دن گیارہویں اور آخری دن تیرہویں تاریخ ہے، دوران حج منیٰ میں تین راتیں گزارنا اور جمرات کو کنکریاں مارنا افضل عمل ہے، لیکن اگر کوئی منیٰ میں دو دن گیارہویں اور بارہویں رات منیٰ میں گزارے اور زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مار کر واپس چلا آئے تو اس کی اجازت ہے، آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ ایام تشریق کے دو دنوں میں جلدی کر لے اور دوسرا دن بارہویں تاریخ کا دن ہے، اس دن اگر زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مار کر واپس آجائے تو اس کے لیے جائز ہے، جو شخص گیارہویں تاریخ کو کنکریاں مار کر واپس آجاتا ہے اور بارہویں رات منیٰ میں نہیں گزارتا اس نے دو واجبات کو ترک کیا ہے۔
٭ بارہویں رات منیٰ میں بسر کرنا۔ ٭ بارہویں دن زوال آفتاب کے بعد رمی جمار کرنا۔
جو انسان ایسا کرتا ہے اسے ہر واجب کے ترک کرنے پر مکہ مکرمہ میں جانور ذبح کرنا اور وہاں کے فقراء میں تقسیم کرنا ضروری ہے، اگر کوئی اپنے وطن واپس آگیا ہے، تو وہاں کسی کو اپنا وکیل مقرر کرے جو اس کام کو سر انجام دے، اس آیت کریمہ کا یہ مفہوم قطعاً نہیں ہے کہ وہ گیارہویں دن کنکریاں مار کر منیٰ سے نکل جائے تو اس کے لیے اجازت ہے یعنی وہ دو دنوں سے مراد عید کا دن اور گیارہویں تاریخ کا دن مراد لیتا ہے، بہرحال حاجی کو چاہیے کہ اگر وہ جلدی واپس آنا چاہتا ہے تو گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مار کر واپس مکہ جائے لیکن اگر تیرہویں رات کا منیٰ میں قیام کرنا ہے اور اگلے دن زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مار کر واپس آنا ہے تو ایسا کرنا ااس کے لیے ثواب و اجر میں اضافے کا باعث ہے۔ ان شاء اللہ۔
[1] ۲/البقرة: ۲۰۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب