السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا میت کی طرف سے عمرہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کی طرف سے ایصال ثواب کی وہی صورتیں مشروع ہیں، جن کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے، ہر عمل صالح کے ذریعے سے ایصالِ ثواب صحیح نہیں ہے، عمرہ بھی ایک ایسا عمل ہے جس کے ایصال ثواب کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے نہیں ملتا، میت کی طرف سے صدقہ کرنا، حج کرنا اور دعا کرنا ایسے اعمال کیے جا سکتے ہیں اور ان کا فائدہ حدیث کی رو سے میت کو پہنچتا ہے، میت کی طرف سے حج تو کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اپنی ماں کی طرف سے حج کر سکتی ہوں جبکہ اس نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور وہ حج کیے بغیر ہی فوت ہو گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں! تو اس کی طرف سے حج کر سکتی ہے۔‘‘ [1]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’میت کی طرف سے نذر حج کی ادائیگی۔‘‘ [2]
لیکن کسی کی طرف سے حج کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان نے پہلے اپنا فریضہ حج ادا کر لیا ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے کہا تھا: ’’پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے ادا کرنا۔‘‘ [3]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے حج تو کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ حج کرنے والا پہلے اپنا فریضہ حج ادا کر چکا ہو لیکن میت کی طرف سے عمرہ کا ثبوت ہمیں قرآن و حدیث سے نہیں ملا، اگرچہ کچھ اہل علم حج پر قیاس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے عمرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] بخاری، الحج: ۱۸۲۲۔
[2] صحیح بخاری، الحج، باب نمبر: ۲۲۔
[3] ابوداود، المناسک: ۱۸۱۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب